Monday 16 November 2015

چند لفظو ں کی کہانی مالکن اور نوکرانی

چند لفظو ں کی کہانی
مالکن اور نوکرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مالکن نے نوکرانی سے گهر کا سارا کام اپنی نگرانی میں کروایا. اس نگرانی سے مالکن تهک کر چور ہو گئی. تهکن اتارنے کے لئے نوکرانی نے مالکن کے ہاتھ پاؤں دبائے، مساج کیا اور دوسرے گھر کام کرنے چلی گئی. (عرفان شہزاد)

Tuesday 3 November 2015

دوقومی نظریہ: نتائج اورعواقب کی روشنی میں

 سیاست میں تاثر ، perception، کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ حقیقت کیا ہے، اس سے غرض نہیں ہوتی۔ غرض اس سے ہوتی ہے کہ پروجیکٹ کیا ہوا، تاثر کیا بنا۔ دو قومی نظرئیے پر ہم اسی تناظر میں بات کر رہے ہیں کہ جس تاثر کے ساتھ وہ  عوام میں تقسیمِ ہند کے وقت  پھیلا، یا پھیلایا گیا اور اب تک  جیسا پڑھایا اور سکھایا جا رہا ہے۔ تحقیق سے اگر ثابت بھی ہو جائے کہ قائد اعظم یا مسلم لیگ کا نظریہ اس تاثر سے مختلف ہے جو ہمارے سامنے ہے تو  بھی ہمارے لیے نتائج کے اعتبار سے اسی تاثر کی اہمیت ہےنہ کہ اس نظرئیے پر جو قائداعظم یا مسلم لیگ کے اذہان  میں رہ گیا اور اس کی ترسیل نہ ہو سکی۔ جس تاثر نے یہ نتائج پیدا کئے ہمارے لیے وہی حقیقت ہے اور اسی پر بات کرنا ضروری ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس پر با ت کرنا کیوں ضروری ہے؟ کیا یہ بے وقت کی راگنی ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔  تقسیم ِ ہند کے اثرات اور نتائج کا سلسلہ 1947 سے لے کر آج تک لگاتار جاری ہے۔ دونوں ملکوں کی نفرت نے دو نسلوں کو نگل لیا ہے۔ اس نفرت نے خطے کی بھوک مٹانے کی بجاے، کھیت اور کھلیان جلانے کے لیے جان جوکھوں میں ڈالی ہوئی ہے۔ وہ جوانیاں جو اپنی ذاتی اور ملکی ترقی کے کام آ سکتی تھیں، وہ جنگوں میں ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کےکام آ رہی ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام کی قربانیوں کا سلسلہ تھمنے  میں نہیں آ رہا۔ تقسیم کے وقت جو ٹرینیں لاشوں سے بھری ہوئی آتی تھیں آج بھی ان سے لاشیں اٹھا ئی جا  رہی یں ہیں: پہلے وہ تلواروں اور بھالوں کی زد میں ہوتی تھیں ، آج وہ بم دھماکو ں کا ہدف  ہیں ۔تقسیم کا اشتعال آج بھی سرحدوں پر بلا اشتعال فائرنگ کروا دیتا ہے۔  گیتا  جیسی لڑکیوں کو 17 سال در در کے دھکے کھا کر اپنے ملک جانا نصیب ہوتا ہے، اور کتنے ایسے ہیں جن کو جانا نصیب ہی نہ ہوتا، کتنے ہیں جو اپنوں سے ملنے کی آس لیے وہ تہہ خاک چلے گئے۔ابھی چند دن پہلے ہی ہندوستان سے ایک بہن 50 سال بعد اپنے بھائی سے ملنے پاکستان آئی تو بھائی اس  خوشی سے ہی چل بسا۔ تقسیم کے دکھ ختم نہیں ہوئے۔ دونوں ملکوں کی نفرت نے تعلیم کو بھی تخریب کا ذریعہ بنا لیا ہے۔  سیلاب روکنے کے اقدامات سے زیادہ ان کے لیے ایٹم بم بنانا ضروری ہوگیا تاکہ دونوں ملک ایک دوسرے کو مکمل طور پر نیست و نابود کر سکنے کی صلاحیت حاصل کرسکیں! ہمارا مستقبل سخت خطرے میں ہے۔ اور اسی وجہ سے ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ نفرت کی بنیادوں کو سمجھیں اور اس کے خاتمے کا حل تلاش کریں۔ بنیاد کی غلطیوں کو درست کیے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ اور یہی ہماری کوشش ہے۔
ہندوستان اور پاکستان میں نفرت کی بنیاد تقسیمِ ہند ہے۔ اور تقسیمِ ہند کی بنیاد  دو قومی نظریہ۔  دو قومی نظریہ جس تاثر کے ساتھ عوام میں پھیلایا گیا ہم اس پر بات کررہے ہیں۔
دو قومی نظرئیے کی پیدایش اورتشکیل کے عوامل میں ، متحدہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کے مسائل ایک بنیادی وجہ تھی۔مسلم اقلیت، ہندو اکثریت کے سیاسی، معاشی، تعلیمی استحصال کا شکار تھی. اگرچہ اس میں مسلمانوں کی اپنی نالائقیوں کا بھی بڑا دخل تھا.  جدید تعلیم سے دوری اور کاروبار اور محنت سے بےزاری بهی کم نہ تھی دوسرا بڑا عامل یہ تھا کہ اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ سے  نکل گیا تھا اور یہ احساس  ہو رہا تھا کہ آزادی ہے بعد وہ جمہوریت کے نام پر وہ ہندو اکثریت کے  زیر دست بن جائیں گے۔ ان عوامل سے علیحدہ قومیت کا احساس پیدا ہوا۔اس کا حل یہ نکالا گیا کہ  مسلمانوں کو  الگ ملک بنا کر رہنا چاہیے۔ اس خیال کو ہندوستان میں پسنے والی مسلم اقلیت میں  پذیرائی حاصل ہوگئی، اور اس کے ساتھ مسلم لیگ کو بھی، جو کو اس واضح مقصد کے تعین سے پہلے مسلمانوں  میں پذیرائی مل نہیں پائی تھی۔
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی، جو  اب پاکستان میں شامل ہیں، وہاں کے مسلم عوام کو  وہ  مسائل درپیش ہی نہ تھے، جو ہندوستان کی مسلم اقلیت کو درپیش تھے اور جن کی بنا پر یہ مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ یہاں برعکس معاملہ ہوسکتا تھا کہ ہندو اقلیت  کو مسلم اکثریت سے خطرات لاحق ہو سکتے تھے، مگر ایسا بھی کچھ نہ تھا۔ یہ علاقے اس لحاظ سے پرسکون تھے، اور اسی وجہ سے سیاسی طور پر کم بیدار بھی۔ اور اسی وجہ سے مسلم لیگ کو آخر وقت تک ان علاقوں سے ووٹ حاصل کرنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔  پنجاب  سے ساری سیٹیں انہیں کبھی مل ہی نہ سکیں۔ صوبہ خیبر پختون خواہ  اور بلوچستان پاکستان بننے کے بعد پاکستان میں شامل ہوئے۔ دوسری طرف، جس مسلم اقلیت کے یہ  مسائل تھے، یعنی ہندوستان کے  ہندو اکثریت والے علاقوں کے مسلمان، ان کے لیے الگ ملک کا قیام ان کے مسائل کا حل تھا ہی نہیں، اس لیے کہ عملًا یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ سب کے سب ہجرت کرکے پاکستان میں چلے آتے۔1920 کی تحریکِ ہجرت میں وہ یہ ناکام تجربہ پہلے کر بھی چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ کو الگ مسلم ریاست کے نام پر سب سے زیادہ ووٹ اور سیٹیں ان سے ہی ملیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ لوگ ووٹ نہ دیتے تو پاکستان بھی بن نہیں سکتا تھا۔
دو قومی نظریہ ایک ایسا  لالی پاپ تھا، جسے ہر طبقے کو اس کے پسندیدہ ذائقے اور رنگ میں پیش کیا گیا تھا۔ ہندوستان کی مسلم اقلیت کو یہ بتایا گیا کہ الگ ملک ہوگا تو مسلمانوں کا مذھبی، اور ثقافتی تشخص محفوظ رہے گا ورنہ ہندوستان کی ہندو اکثریت میں ضم ہو کر کھو جائے گا۔  لیکن یہ پتا، مسلم اکثریتی علاقوں کے  مسلمانوں  کے ہاں نہیں چل سکتا تھا۔ چنانچہ، ان کو  یہ بتایا گیا کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد، جمہوریت کے نظام کی وجہ سے سیاست اور حکومت میں مسلمان اقلیت میں  رہ جائیں ، یہاں کے لوگ بھی ہندو اکثریت کے دست نگر بن جائیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کا الگ ملک ہو تاکہ وہ  اس میں آزادی سے حکومت کر سکیں گے۔
تیسری طرف، مذھبی  طبقے کو ساتھ ملانے کے لیے انہیں بتایا  گیاکہ یہ درحقیقت اسلامی ریاست کا قیام عمل لایا جا رہا ہے، جس سے خلافت کی کمی پوری کی جاسکے گی، اسلام نافذ ہوگا اور قرونِ اولی کی یاد تازہ ہو جائے گی۔ علامہ اقبال جیسی بلند قامت شخصیت اور ان کے عظمتِ رفتہ کی بحالی کی فکر اور شاعری نے مسلم لیگ کے مدعا کو مذھب کو مقدس جامہ پہنا دیا۔مذھب کو شامل کرتے ہی، پاکستان اب ایک نظریہ  سے بلند ہو کر عقیدہ بن گیا، ' پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ' کا نعرہ اس فکر کا ترجمان بن کر مقبول ہوگیا، اب جس کی مخالفت، کفر اور گمراہی قرار پائی۔مسلم لیگ میں شامل ہونے والی مذھبی شخصیات کو فورًا ہی اس نظرئیے کے حق میں  دلائل کے ساتھ ساتھ، مطلوبہ خواب  اور غیبی بشارتیں بھی  آنے لگیں۔  وہ مسلم لیگ کی قیادت، کے  مغربی لباس کو تو تبدیل نہ کروا سکے، لیکن عالمِ رویا  میں انہوں نے ان کو  سبز چغے پہنا دئیے۔ البتہ، مخالف دھڑوں کی دینی  شخصیات کے مختلف یا مخالف خواب، الہام ، کشف اور فتوؤں کو انہوں نے نظرانداز کر دیا گیا۔  اس کے ساتھ ہی ،حسبِ توقع وہ، قرآن سے بھی دو قومی نظریہ برآمد کر لائے۔
چوتھی طرف، لبرل، سیکولر اور غیر مسلم اقلیتوں  کو یہ بتایا گیا کہ پاکستان  میں ملائیت (Theocracy)نہیں ہوگی۔  تمام شہری بلا امتیازِ مذھب برابر ہوں گے۔  'وقت سے ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے ، اور مسلمان ، مسلمان نہیں رہیں گے، مذھبی  طور پر نہیں بلکہ سیاسی طور پر '۔ چنانچہ یہ لبرل اور سیکولر طبقات بھی اس تحریک میں دامے درمے سخنے  شامل ہو گئے۔
آج جو یہ سب طبقات دو قومی نظریےیا نظریہ پاکستان کی اتنی مختلف توجیہات پیش کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر ایک کو جو ورژن بتایا گیا، وہ اسی کا راگ الاپ رہا ہے۔

بدقسمتی دیکھئے کہ جس وقت دنیا شعوری بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، فیڈریشن اور کنفیڈریشن کی طرف جا رہی تھی، ہندوستان کے رہنما انہیں تقسیم کا سبق پڑھا رہے تھے۔ امریکہ کی 50 ریاستوں نے 1775 میں ساتھ مل کر رہنےکا معاہدہ کیا اور پهر وہ دنیا کا ایک طاقتور ترین ملک بن گئے ہیں۔ یورپ کے 28 ممالک نے مذھب اور مسلکی بنیادوں پر ہونے والی صدیوں کی طویل باہمی جنگوں سے سبق سیکھ کر یورپین یونین کی بنا ڈالی۔ اسی طرح دنیا کے دیگر سیاسی بالغ ممالک بھی باہمی تعاون سے رواداری سے رہنا سیکھ گئے، لیکن ہندوستان کے باشندے مذھب اور ثقافت کے نام پر ایک زمین، ایک تاریخ، ایک بڑی مشترکہ زبان (اردو اور ہندی)، ایک ادب ، ایک جیسے فنون لطیفہ کے وارث ہوکر بھی ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے۔ ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ یکساں اور متخالف اقدار کا میزانیہ بنایا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہماری مشترکہ یکساں اقدار اتنی زیادہ ہیں کہ مختلف یا متضاد اقدار بے ضرر بلکہ اختلاف حسن کا باعث ہیں۔ مگر سیاست دانوں کے سیاسی مفادات اور تعصبات، فرقہ باز مولویوں کی طرح ہمیں اتفاق سے زیادہ اختلاف کے پہلو نمایاں کر کے دکھاتے ہے۔
پھر یہ تقسیم کی نفسیات کہ اگر دو لوگ ایک دوسرے سے مختلف فکراور تہذیب کے حامل ہیں تو انہیں الگ بھی ہو جانا چاہیے، ہمیں مزید تقسیم کرتی چلی گئی۔ تقسیمِ ہند کی کامیابی نے تقسیم کی اس نفسیات کو تقویت دی۔ چنانچہ، ملک کے اندر ہم آپس میں یہ دیکھنے لگے ہم میں سے کون کون ہم سے مختلف ہے، اور پهر اسے خود سے الگ کرنے کے لیے اسے خود سے الگ سمجھنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں پہلے مشرقی پاکستان کے لوگ ہم سے علیحدہ ہوگئے، محض اس بنا پر کہ چونکہ وہ ہم سے مختلف رنگ، زبان اور تہذیب رکھتے تھے، اس لیے ان کا علیحدہ ہونا بھی ضروری تھا۔ در حقیقت، وہ علیحدہ نہں ہوئے تھے، ہم نے انہیں علیحدہ کیا تھا۔ یہ سلسلہ پھر چل نکلا، چنانچہ، ہم نے اپنے ملک کی سب سے بڑی اقلیت، مسیحی برادری کو خود سے الگ سمجھ لیا، ان کی بستیاں الگ بسائیں، معاشرتی طور پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک اپنایا، بات بات پر ان پر توہینِ مذهب کے الزام لگا کر ان کو ایک خوف زدہ اقلیت میں تبدیل کر دیا۔ ہم مسلسل ان کو الگ کئے جارہے ہیں۔ اب دیکھئے وہ بھی کب ہم سے الگ ملک کا مطالبہ کر دیں، اور جب وہ یہ مطالبہ کریں گے، تو ہم ان پر الزام لگا دیں گے کہ وہ پاکستان کے وفادار نہیں،اس ملک کو تقسیم کر کے وہ غیرو ں کا ایجنڈا پورا کررہے ہیں۔ اور اگر وہ علیحدہ ہونے میں کامیاب ہوگئے تو ہم ان سے ہمیشہ کے لیے دشمنی پال لیں گے۔ یہ ہے وہ کہانی جو بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ اس سےایک قدم اور آگے بڑھ کر ہم نے زبانوں کے مختلف ہونے کی بنیاد پر الگ صوبے بنانے کا مطالبہ کر دیا۔ کراچی جیسے شہر میں مختلف قومیتوں والوں کے الگ الگ علاقے بن گئے۔حتی کہ ملک میں اہلِ تشیع کو بھی الگ محلّے بنا کر رہنا پڑا۔
ادھر بھارت میں بھی یہی ہوا۔ بھارے کے مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کے لیے ووٹ دینے کی سزا آج بھی مل رہی ہے۔ ان کے بھی الگ علاقے ہیں۔ اور وہ تمام امتیازات ان سے بھی برتے جا رہے ہیں جو ہم یہاں مسیحی برادری سے برتتے ہیں۔ تقسیم کی نفسیات اپنا کام کیے چلی جار ہی ہے۔ ہمیں تقسیم در تقسیم کرتی چلی جا رہی ہے۔
جن فسادات سے بچنے کے لیے ہم نے الگ ملک بنا تها ان فسادات نے ہمارا پیچھا پھر بھی نہ چھوڑا۔ ہمیں ہندو نہ ملے تو ہم نے اپنے ملک کے لوگوں کو کاٹنا شروع کر دیا۔ حقیت میں مسئلہ ادیان کا نہیں، انسان کا تھا۔ یہ انسان تھا جو لڑنا چاہتا تھا۔ وہ مذهب کو بنیاد بنا کر لڑا، جب یہ بنیاد نہ ملی تو مسلک کو بنیاد بنا کر لڑا، مزید ورائٹی کے لیے زبان اور جلد کے رنگ کے اختلاف کو بنیاد بنا کر لڑا۔ ہم کب تک اور کہاں تک علیحدہ ہو تے چلے جائیں گے۔ ہم جتنے بھی اپنے جیسوں کے ساتھ علیحدہ ہوں گے، وہ بھی بہرحال انسان ہی ہوں گے۔ ہم انسان سے تو علیحدہ نہں ہو سکتے۔ ہم اپنے اپنے یونٹوں میں بھی لڑنے کے لیے کوئی نہ کوئی اختلاف ڈھونڈ لیں گے۔ تو اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ علیحدہ ہونا اس کا حل نہیں، وہ حل نکال کر ہم بھگت چکے۔ اس کا حل انسان کو انسان بنانے مٰیں ہے۔ اس کی تعلیمی اور شعوری تربیت کرنے میں ہے کہ وہ انسانوں کے ساتھ انسانوں کی طرح رہنا سیکھ لیے۔ یہی ایک حل ہے۔ تقسیم اس کا حل نہیں۔ تقسیم در تقسم کی پهر کوئی حد نہں۔
یہی بھارتی اور پاکستانی، ہیں جو باہر ممالک میں جب جاتے ہیں تو محض معاش کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ نہایت امن و سکون ، بلکہ بھائی چارہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ پیٹ کے راستے آنے والی عقل بڑی پختہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب بھارت اور پاکستان کے عوام میں ہونے نہیں دیا جاتا۔ اگر باہر ممالک میں ایک ساتھ رہنے اور کھانے پینے سے ان کا مذھب اور دھرم، خراب اور بھرشٹ نہیں ہوتا تو اپنے ملک میں کیوں ہو جاتا ہے؟ وہاں ان کی ثقافت کو ایک دوسرے سے خطرہ لاحق نہیں ہوتا تو یہاں کیسے لاحق ہو جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ خطرات عوام کو نہیں ، سیاست دانوں کو لاحق ہوتے ہیں۔ جن کو مشترکہ حکومت میں اپنے ذاتی اقتدار کی آزادی نظر نہیں آتی اس لیے وہ تقسیم کو پسند کرتے ہیں تاکہ ایک الگ ٹکڑے میں بلا شکرکتِ غیرے اقتدار کے مزے لوٹ سکیں۔ اس کے لیے نفرت کا پیدا کرنا اور نفرت کو قائم رکھنا ان کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ ان کا حال فرقہ باز مولویوں سے بالکل مختلف نہیں ہے۔
دونوں ملکوں کی عوام کو چاہیے کہ نفرت کے اس کھیل کو سمجھیں اور اپنے خرچے پر اپنی تباہی مت خریدیں۔ تقسیمِ ہند، تاریخ کا جبر تھا جو گیا۔ اب ہمارے مستقبل کا تحفظ اور فلاح، بالغ نظر ممالک کی طرح کنفیڈریشن بنا کر رہنے میں ہے۔ جہاں سرحدیں بس نام کی ہوں۔ ویزہ کی پابندی نہ ہو۔ جب ایک دوسرے کے ہان آناجانا ہوگا تو معلوم ہوگا کہ دونوں طرف عام انسان بستے ہیں، جو اسی طرح سکون سے رہنا چاہتے ہیں، جیسے ہم رہنا چاہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوگا کہ وہاں اور یہاں کا عام آدمی اس 'عام آدمی' سے بالکل مختلف ہے جو میڈیا کے کیمرے کی کانی آنکھ سے نظر آتا ہے۔