Friday 25 September 2015

اسلام اور جمہوریت۔ ایک جدید تناظر

انسانی زندگی کی اقدار کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جو ناقابلِ تغیر یا مستقل نوعیت کی ہیں اور دوسری جو تغیر پذیر ہیں۔مستقل اقدار کے لیے اسلام نظام دیتا ہے لیکن متغیر اقدار کے لیے اصول دیتا ہے، نظام نہیں دیتا۔ بہت سے فکری مسائل اس بنیادی فرق کو ملحوظ نہ رکھنے سے پیدا ہوتے ہیں کہ اسلام انسانی زندگی کی ان دو مختلف اقدار کو دو مختلف انداز میں دیکھتا اور حل کرتا ہے۔
اسلامی احکامات اورتعلیمات اپنے اطلاقات میں اقدار کے اس فرق کو ملحوظ رکھتی ہیں۔مثلاً عقائد مستقل قدر ہے۔ چنانچہ اس کی تعلیم بھی مکمل طور پر مستقل نوعیت کی ہے اس میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔ دوسرے درجے میں عبادات کا نظام ہے جو بنیادی طور پرمستقل نوعیت کا حامل ہے لیکن تغیر پذیر انسانی زندگی سے عملاً متعلق ہونے کی وجہ سےتغیر بھی قبول کرتا ہے۔ سماجی سطح پرنکاح و طلاق کے احکام، مرد و عورت کے اختلاط کے حدود، خورونوش، وراثت اور حدود کی سزائیں مستقل نوعیت رکھتی ہیں، اور ایک نظام کی صورت میں ہمیں ملتی ہیں، تاہم ان کے اطلاق میں بھی تغیرات کا لحاظ رکھا گیا ہے، کیونکہ اطلاق تغیر پذیرحالات اور سماج پر ہو رہا ہوتا ہے۔
اس کے ہٹ کر، تمدنی مظاہر مثلاً سیاست، معیشت، ثقافت وغیرہ ، مکمل طور پر تغیر پذیر اقدار ہے اس لیے ان سے متعلق احکامات بنیادی طور پر صرف اصولی نوعیت کے ہیں ، نظام کی شکل میں نہیں ہیں۔ تمدنی معاملات میں اسلامی نظام پر اصرار سراسر تکلف ہے۔
تمدن انسان کا ذہنی اور مادی ارتقاء ہے۔ اس ارتقاء میں تمام انسانیت برابر کی شریک ہے۔ اس کی ارتقاء میں اچھے اور برے ، پسندیدہ اور ناپسندیدہ اور باہم اختلافی اقدار سب نمو پاتی اور وقت کے ساتھ اپنی افادیت  کی وجہ  سےترقی کرتی یا اپنی کم مائیگی کے وجہ سے مٹ کر دوسری اقدار کے لیے جگہ خالی کر جاتی ہیں۔ اس تغیر پذیر تمدن کے لیے اسلام اپنے پیروؤں کو چند اصولی احکامات دے کر باقی سب ان کے عقل اور تجرباتی فہم  پر چھوڑ دیتا ہے۔ مثلاً معیشت میں لین دین میں ایمان داری  اور دوسرو ں کے حقوق کا لحاظ کرنے کی آفاقی تعلیم دے کر سود ، جوا،غرر وغیرہ کو حرام قرار دے کر انسان کو   بنیادی اصولی رہنمائی دے دی گئی کہ  اپنے تمدن سے ارتقاء  پانے والے معاشی نظاموں میں ان اصولوں کو مدّ نظر رکھ کر جو بھی معاشی قوانین اور نظام  بنانے ہیں بنا لیے جائیں۔
یہی معاملہ سیاست کا  ہے۔ تمدنی تغیر کی حقیقت کے پیشِ نظر یہ  ضروری تھا  اورنہ ہی  قابلِ عمل کہ ایک بنا بنایا نظامِ سیاست مسلمانوں کو تھما دیا جاتا کہ تاقیامت اس پر عمل کیا جائے۔ اسی لیے عدل و انصاف کی آفاقی اقدار کی تاکید  کے بعد، شورائیت کا اصول دے کر انہیں ہدایت کر دی گئی کہ تنازع کی صورت میں  اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کریں اور اجتماعیت سے متعلق اسلامی احکامات اختیار کر یں۔
شورائیت کا اصول ہی مسلمانوں کے نظامِ حکومت کا اصل الاصول  قرار پایاہے۔ اللہ کی ارشاد ہے:
وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ(الشوری، 42:38)
اور ان کا ہر کام (جس میں بالتعیین نص نہ ہو) آپس کے مشورے سے ہوتا ہے (اشرف علی تھانوی)
چونکہ اس آیت کا حکم مطلق ہے اس لیے اس میں ہر اجتماعی معاملے میں مسلم معاشرے کے افراد کا مشورہ  سے اپنے امور طے کرنا شامل ہے۔ تاہم  اہلیت ہونے کے باوجود قاذف اور  فاسق جو کبیرہ گناہوں میں ماخوذ ہو، سے مشورہ نہیں لیا جائے گا ۔
وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (النور 24:4)
اور ان کی کوئی گواہی قبول مت کرو (یہ تو دنیا میں ان کی سزا ہوئی) اور یہ لوگ (آخرت میں بھی مستحق سزا ہیں اس وجہ سے ہے کہ) فاسق ہیں۔
آیتِ شورٰی کے الفاظ پر غور کیجیئے تو فرمایا گیا ہے کہ ان کے امور مشورہ سے طے پاتے ہیں  ۔ یہ نہیں کہا گیا کہ  ان کےامور میں ان سے مشورہ کر لیا جائے۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ ان سے مشورہ کر لیا جائے تو حتمی اختیار مشورہ لینے والے  باختیار فرد یا اافرادکا قرار پاتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کو فرمایا گیا تھا:
 وَشَاوِرهُم فِى ٱلأَمرِ‌فَإِذَا عَزَمتَ فَتَوَكَّ عَلَى ٱللَّهِ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلمُتَوَكِّلِينَ (ال عمران 3:159)
اور ان سے خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجئیے۔پھر جب آپ رائے پختہ کرلیں۔تو خدا تعالیٰ پر اعتماد کیجئیے بےشک الله تعالیٰ ایسے اعتماد کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں۔
اس میں حتمی فیصلہ کا اختیار رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا، جو اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہو سکتا تھا اور مسلمانوں کے لیے واجب الاطاعت تھا۔  لیکن آیتِ شورٰی میں حکم مختلف ہے۔ یہاں یہ ہے کہ ان کے امور طے ہی مشورہ سے ہوتے ہیں، نہ کہ کسی حتمی مختار  کے ذریعے۔  چونکہ  رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے لیے بھی معصومیت یا  منجانب اللہ براہِ راست ہدایت کا دعوٰی درست نہیں ،اس لیے  حتمی آمر بھی کوئی نہیں۔ ام لوگوں کے لیے اس سے بہتر کوئی ہدایت ہو نہیں سکتی کہ وہ آپس کے معاملات مشورہ سے طے کریں۔ اور اس لحاظ سے ان میں کوئی چھوٹا بڑا نہ ہو۔ مشورہ میں برابری کا اصول خود بخود موجود ہے۔مشورہ اہل ِ رائے سے لیا جائے گا یہ عقلی  اصول پہلے سے طے شدہ ہے۔یوں دیکھئے تو مشورہ کرنے میں  حکمران کے نصب و عزل سے لے کر مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا ہر پہلو شامل ہے۔
اب یہ انسانی عقل اور تمدنی حالات کا معاملہ ہے کہ لوگ مشورہ کرنے کے لیے کون سا طریقہ اپنے حالات   کے مطابق اپناتے ہیں۔ اگر آبادی کم ہو جیسا کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں مدینہ کے قبائلی دور میں تھی تو 'الصلوۃ الجامعہ' کا اعلان کر کے سب کو بلا یا جا سکتا ہے، اور اگر آبادی بہت زیادہ ہو جائے تو عوام کی طرف سے ان کے  منتخب نمائندوں کے  ذریعے بھی مشورہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے جدید ذرائع اختیار کیے جانا ایک بدیہی بات ہے۔
یہاں یہ طے کرلیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہےکہ اہلِ رائے  سے کیا مراد ہے۔ میرے نزدیک، حکمران کے انتخاب میں پوری قوم اہلِ رائے ہے۔ لیکن  حکومتی معاملات جو انتظامیہ کے اہلکار چلاتے ہیں اورقانون سازی جو پارلیمنٹ کرتی ہے اس کے لیےمنتخب ارکان اہلِ رائے ہیں نہ کہ عوام۔ دیکھئے کہ خلفاء راشدین کی مجلسِ شورٰی میں تو اہلِ علم و رائے ہی معاملات طے کرتے تھے لیکن حضرت خلفاء کے انتخاب میں ساری کمیونٹی سے مشورہ کیا گیا۔ تاہم،  فقہا کے ہاں یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ وہ معاملات جن کا تعلق براہ راست عوام کے مفاد سے وابستہ ہوں، ان  میں عوام سے مشورہ لیے بغیر اشراف اور سردار فیصلہ نہ کریں۔انتخابِ حکمران میں عوام کا اہلِ رائے ک ہونا بدیہی  ہے۔ یہ معاملہ عقلِ عام کا ہے۔ یہ کوئی پیچدہ فنی یا قانونی معاملہ نہیں کہ عوام اس کا فیصلہ نہ کرسکیں۔ عوام کو پتا ہوتا ہے کہ کون اچھا ہے، کون برا اور کون زیادہ اچھا اور کون زیادہ برا۔ زندگی کے عام معاملات میں وہ مسلسل اپنی اس صلاحیت کا ستعمال کرتے ہیں۔ اس لیے انتخابِ حکمران میں عوام کی رائے اس کی مستحق ہے کہ تسلیم کی جائے۔ رہی یہ بات کہ  انتخابات میں عوام کو  مختلف ذرائع سےبے وقوف بنا لیا جاتا ہے۔ اور پراپیگنڈے کےزور پر ان سے اپنی مرضی کا انتخاب کروا لیا جا تا ہے،  اس لیے مخصوص اہلیت کے افراد کواہل حل و عقد قرار دے کے ان سے فیصلہ کروایا جائے تو عرض ہے کہ  مفاد پرستی کا  اندیشہ تو اہلِ حل و عقد سے بھی لاحق ہے۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ خودپارلیمنٹ میں کس طرح ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے اور مرضی کے فیصلے پر پہنچنے کے لیے کیا کیا حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ انسانوں کے برسوں کا تجربہ ہے کہ جب تک اقتدار کے چناؤ کے فیصلے مخصوص اہلِ حل وعقد ، جنہیں ہم اشرافیہ کے نام سے جانتے ہیں،کے پاس رہا ، انھوں نے عوام سے زیادہ اپنے مفادات کا لحاظ رکھا، عوام تو حماقت سے اپنے مفادات کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں  لیکن  یہ تو پورے شعور سے بدیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس لیے انتخابِ حکمران کا فیصلہ عوام کو ہی کرنا چاہیے تا کہ وہ ان کے نصب و عزل کے  حق کے ذریعے  اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔
یہاں یہ عرض کر دوں کہ  میرے نزدیک عوام میں پائی جانے والی سیاسی شعور کی کمی  کی وجہ جہالت نہیں ہے۔ پاکستان کی حد تک راقم کا یہ مشاہدہ ہےکہ  پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے دونوں طبقات میں   ہر سیاسی پارٹی کے  حامی اورکٹر حامی موجود ہیں ۔ایسا نہیں کہ پڑھے لکھے لوگ  کسی ایسے شعور کا مظاہرہ کرتے ہوں کہ وہ سب کسی ایک پارٹی  میں شامل نہ  ہوں یا  سب کسی ایک پارٹی میں شامل ہوں  یا سب کسی بھی پارٹی میں شامل نہ ہوں۔ان کے ہاں بھی سیاسی رائے دہی اور سیاسی پارٹیوں کی حمایت اور  مخالفت کے بارے میں ویسا ہی ملاجلا رجحان ملتا ہے جیسا کہ کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ افراد میں۔ میرے نزدیک  اس  کی وجہ ہمارے عوام کی طاقت و حشمت سے متاثر ہوجانے کی کمزوری ہے جو برّصغیر کے عوام میں بالعموم پائی جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کی عوام نے ہربیرونی  فاتح کو اس سے شکست کھا جانے کے بعد بلا امتیازِ رنگ و نسل اسے اپنا لیا، بلکہ اس  کے مذہب ، زبان اور ثقافت کو بھی اپنا لیا۔  اس کی فوج میں شامل ہو کر  اپنے مقامی لوگوں کے خلاف لڑتے رہے۔ایک  بیرونی فاتح کو  کوئی دوسرا بیرونی  فاتح ہی آکر تبدیل کرتا رہا۔ اس سے استثناء صرف انگریزوں کا رہا کہ یہاں کے لوگوں نے ان کو برّصغیر سے جانے پر مجبور کردیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ  انہوں نےانگریز سرکار  کی نوکری بھی خوب کی۔ سر سید سے لے کر مسلم لیگ کے قیام کے ابتدائی مقاصد تک میں 'انگریز سے وفاداری' کی تعلیم اور تلقین ملتی ہے۔ غرض، طاقت سے مرعوبیت کی اس کمزوری کو آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے لیے عوام کو اپنے منتخب کردہ طاقتور افراد کے ہاتھوں ملنے والے نتائج کی بھٹی سے برسوں گزرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی ان میں وہ شعور پیدا ہوگا جس سےوہ جمہوریت  کو اپنے عوامی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہوں گے اور اس شعور کے حصول کے لیے بھی ضروری ہے کہ جمہویت کے ذریعے تجربات کا تسلسل قائم رہے۔
واپس شورائیت کی طرف آتے ہیں۔جب مشورہ ہو گا تو دو صورتیں سامنے آتی ہیں: یا تو سب لوگ ایک رائے پر اتفاق کر لیں گے؛ یا ان میں باہم اختلاف ہو جائے گا۔  اختلاف کی صورت میں اس کے سوا چارہ نہیں ہوتا  کہ اکثریت کی رائے پر فیصلہ دے دیا جائے۔ کیونکہ جس طرح یہ گمان موجود ہے کہ اکثریت خطا کر سکتی ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ یہ خدشہ اقلیت کے بارے میں بھی موجود ہوتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ زیادہ کی مخالفت کی بجائے اکثریت کی رائے پر فیصلہ دے دیا جائے۔ رہی یہ بات کہ اکثریت ، اقلیت پر اپنی دھونس اور آمریت نہ جما لے تو اس کے لیے انسانی ضمیر  اور قانون اور انصاف کے تقاضوں  کو ہی اپیل کیا جاسکتا ہے۔ حکومتی پالیسوں پر تنقید کا حق شورائیت کے جزوِ لاینفک ہے۔ خلفاء نے اس حق کے تحفظ  و ترویج کی عمدہ مثالیں قائم کی ہیں۔ 
یہ اسلام کے اصول کی روشنی میں نظامِ سیاست کا بنیادی خاکہ ہے، جو یقینا  ہمارے ہاں مروجہ جمہوریت   (DEMOCRACY)سے  بہت پہلوؤں سےمماثلت رکھتا ہے، انسانی سیاسی تمدن کا ارتقاء  اسلام کے مطمحِ نظر کے قریب آتا جا رہا ہے۔ تاہم،  چونکہ مسلمان جمہوریت سے اس وقت متعارف ہوئے جب وہ زوال کا شکار ہوئے اس لیے وہ اس خود اعتمادی   ، ذہانت  اور تنقید سے اس کو وصول نہ کر سکے  جو جمہوریت کو اسلامی اصولِ سیاست سے  مکمل طور پرہم آہنگ  کرنے کے لیے ضروری تھی۔ نیز صدیوں موروثی بادشاہت بنامِ خلافت کے تحت رہتے ہوئے وہ سیاسی تنقیدی صلاحیت کو پروان بھی نہ چڑھا سکے تھے۔ اس لئے وہ اگر سیاسی نظام پر تنقید کرنا بھی چاہتے تو نہ کر پاتے۔ چنانچہ ان میں تین طرح کے رجحان سامنے آئے ایک وہ جنہوں نے جمہوریت کو من وعن قبول کر لیا ۔یہ ذہنی طور پر  شکست خوردہ تھے  ۔ اور دوسرے وہ جنہوں نے اسے   بالکلیہ کافرانہ نظام کہہ کر رد کر دیا ۔ یہ بھی شکست خوردہ نفسیات کا ردعمل تھا۔ تیسرے وہ جنہوں نے اسے کسی حد تک اسلامی اصولِ سیاست سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، جیسا کہ پاکستان، جہاں مقتدرِ اعلیٰ عوام کی بجائے اللہ کو تسلیم کیا گیا جس کی اطاعت میں  اقتدار عوام کے نمائندوں کے ہاتھ میں امانت ہے۔
لیکن راقم یہ سمجھتا  ہے  کہ درحقیقت  جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہی  ہوتےہیں۔ چاہے یہ جمہوریت' اسلامی' ہی کیوں نہ ہو اور چاہے اقتدارِ اعلی عوام کی بجائے اللہ کو قرار دیا گیا ہو۔ پاکستان میں   اگرمقتدرِ اعلیٰ اللہ کو مانا گیا ہے  اور یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ کوئی قانون  قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنے گا  تو اسی لیے کہ عوام کی اکثریت اس کی حمایتی تھی۔اگر کل خدا نخواستہ عوام کی اکثریت اسلام کے خلاف  یا اس کے کسی حکم کے خلاف کھڑی ہوجائے تو حقیقت یہ ہے کہ بات تو اسی کی چلے گی۔  بھلا ایسی عوام پر اسلام کے نفاذ کے لیے زبردستی کی بھی کیسے جا سکتی ہے جو اس کو ماننے کو تیا ر  نہ ہو۔ سید احمد شہید نے بھی یہ کوشش کی تھی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ  شریعت سے متوحش پختون قبائل کے عمائدین نےسید صاحب کے تمام عمال کو ایک ہی رات میں تہ تیغ کردیا۔ سید صاحب اور ان کے رفقاء کو ان لوگوں کی مخبری کی وجہ سے سکھ فوج کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کرنا پڑا۔  غرض جو لوگ جمہوریت سے اسلامی  اجتماعی احکامات کا نفاذ چاہتے ہیں انہیں چاہیے  عوام کو ان کے اس فریضہ کا احساس دلائیں کے اسلام کے اجتماعی احکامات کا اختیار کر نا ان کا دینی فریضہ ہے اور اپنے حکمرانوں  ، چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ، سے پر امن طریقے سے مطالبہ کریں  کہ ان کو  ان کے دینی  اجتماعی  احکامات پر عمل کرنے کے لیے مطلوبہ سہولیات فراہم کریں۔
جدید قومی ریاستوں میں، جہاں مسلم اور غیر مسلم ایک مخلوط معاشرے میں رہتے ہیں، حکمرانوں کے انتخاب میں دینی تفریق کا اصول نامناسب ہے۔ اسی طرح جداگانہ انتخابات کا طریقہ بھی غیر ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  مسلمانوں پر صرف یہ فرض ہے کہ وہ جب بھی  اقتدار میں آئیں، خواہ مطلق حیثیت سے یا مخلوط حکومت میں، تو مسلم معاشرے کے مسلم افراد پر اسلام کے اجتماعی احکامات کا نفاذ کردیں۔  رہے غیر مسلم، چاہے اقلیت میں ہو ں یا اکثریت میں ، وہ ملکی قوانین  میں تو برابر  کی حیثیت کے حامل ہوں گے لیکن  ان پر ان کے مذھبی قوانین کا اطلاق ان کے کثرتِ رائے سے کیا جائے گا۔
بعض اہل، علم کے نزدیک ،جمہوریت  میں امیدوارِ حکومت کا اپنے لیے حقِ حکومت طلب کرنا اسلام کے  سیاسی مزاج سے  ہم اہنگ نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک  ہے:
«لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا، عَنْ مَسْأَلَةٍ، وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ، أُعِنْتَ عَلَيْهَا، فَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ، وَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ» (سنن الدارمی جزء 2، ص 1513، حدیث ،2391، ناشر دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية)
تم خود سے امارت مت طلب کرو، اگر تمھیں یہ طلب  کرنےسے ملی تو تمہیں اس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اور اگر بغیر طلب کے مل گئی تو تمہاری مدد کی جائے گی۔تو جب تم امارت کا حلف اٹھانے لگو تو تم دیکھو کہ کوئی اور تم سے بہتر ہے تو حلف اٹھانے سے رک جاؤ، اور امارت اس کے حوالے کر دو جو تم  سےبہتر ہے۔
اس پر بعض دیگر اہلِ علم کا تبصرہ یہ ہے کہ رسول اللہ کا یہ فرمان مخصوص افراد کے حالات کے تناظر میں تھا اور آپ نے ان کو عہدہ کی طلب سے منع فرمایا ۔ اس کو کلیہ  بنانے سے معاشرتی امور کا چلنا ممکن ہی نہیں۔ نوکریوں کے لیے درخواستین دینا بھی تو اسی زمرے میں آتا ہے۔ تاہم اس کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت جیسے حساس معاملے میں رسول اللہ ﷺ نے شاید معیار زیادہ سخت رکھا ہوا تھا کہ عہدہ اسی کو دیا جائے جو اس کی طلب نہ رکھتا ہو، تاکہ اس سے عہدے کے لالچ میں ظلم و زیادتی کا اندیشہ کم ہو۔ اس اصول پر  کسی صورت آج بھی عمل کرنا چاہیے۔اب  یہ مسلم علماء اور سماجی اور عمرانی علوم کے ماہرین  کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کا مطلوبہ نظام سوچیں اور متعارف کروائیں، تاکہ جب مسلمان  اہلِ حل و عقد قائدانہ کردار ادا کرسکنے کےقابل ہوں جائیں گے تو اس کو عملی جامہ پہنا سکیں۔یہ سچ ہے کہ خود  حکمرانی کا حق طلب کرنے والے کے بارے میں یہ گمان زیادہ ہوتا ہے کہ وہ اقتدار کا غلط استعمال کرے گا ، لیکن مغربی ممالک کے عوام کی اپنے حکمرانوں کے بارے میں پائی جانے والی حساسیت سے اس کا علاج بڑی حد تک کر لیا گیا ہے۔ان کے سیاسی قائدین کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سخت اور بے لاگ احتساب کے نتیجے میں ان کی معمولی لغزش ان کے سیاسی کیرئیر کا خاتمہ کر سکتی ہے، اور وہ سزا سے بچ نہیں سکتے تو وہ حتی الامکان بدیانتی سے اپنا دامن بچا کر چلتے ہیں۔ بدیانتی سے  نہ صرف ان کا سیاسی کیرییر ختم ہو جاتا ہے بلکہ ان کا سماجی  مقاطعہ بھی ہوجاتا ہے، ان کا اپنے خاندان  تک سے تعلق ختم ہوجاتا ہے ۔ بدیانتی کے ایسے اکادکا واقعات کے نتیجے میں ان کے بعض افراد نے تو خود کشی تک کر لی تھی۔
راقم الحروف کے مطابق اس  مسئلے کا ایک ممکنہ حل یہ ہوسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن جیسے بااختیار ادارہ کی طرف سے حکمرانی کے مختلف درجات: صدر، وزیر، ناظم وغیرہ کے لیے افراد کی نامزدگی کا مشورہ  بھی عوام سے لیا جائے۔یعنی امید وار خود کو نامزد نہ کرے بلکہ یہ نامزدگی بھی عوام کی طرف سے آئے۔ اس سلسلے میں الیکٹرانک  اور سوشل میڈیا کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ نامزدگی کے بعدامید واروں کو کڑے معیار کے مطابق پرکھا جائے اور اس کے  بعدانتخابات کرو ا لیے جائیں۔  حکومت کے مناصب کی تنخواہ اوسط دجے کی ہوں تاکہ حرص کا عنصر ختم کیا جا سکے۔

اگرچہ کوئی بھی طریقہ مکمل طور پر لالچ، تعصبات، اور سازشوں سے محفوظ نہیں ہو سکتا مگر ایک طریقہ دوسرے سے نسبتاً بہتر ہوسکتا ہے۔

Saturday 12 September 2015

مولانا ظفر علی خان کا ایک شعر اور قرآن کی ایک آیت کے ساتھ معنوی اشتراک کے بارے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ

مولانا ظفر علی خان کا یہ مشہور شعر :
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
قرآن کی آیت
انَّ اللہلَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ
سے ماخوذ سمجھا جاتا ہے۔
اس بارے چند غلط فہمیاں دور کرلی جانی چاہیے۔ پہلی بات یہ کہ یہ شعر غلط طور پر علامہ اقبال یا الطاف حسین حالی سے منسوب کردیا جاتا ہے۔ یہ درحقیقت مولانا ظفر علی خان کا شعر ہے۔ دوسری بات یہ کہ مولانا نے اس شعر کا خیال قرآن کی درج بالا آیت سے لیا ہے یا نہیں، یہ متحقق نہیں۔ تاہم یہ سمجھنا غلط فہمی ہے کہ اس شعر اور قرآ ن کی آیت کا مفہوم یکساں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں کوئی معنوی اشتراک نہیں بلکہ دونوں کلیتہً مختلف مفاہیم پر دلالت کرتے ہیں۔
اس شعر کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ جس قوم کو اپنی بری حالت کی اصلاح کی فکر نہ ہو، خدا بھی ان کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ دوسرے لفطوں میں خدا ان قوموں کی حالت بہتر بنانے میں ان کی میں مدد کرتا ہے جو اپنی حالت بہتر بنانے کی فکر اور کوشش کرتےہیں۔ یہ خیال بذاتِ خود درست ہے۔ لیکن اس کو محو بالا آیت کا مصداق سمجھنا غلط ہے۔ اس آیت کا مصداق کچھ اور ہے۔ جو ہم بیان کرنے کی جوشش کرتے ہیں۔
یہ آیت معمولی تغیرِ الفاظ کے ساتھ قرآن میں دو جگہ آئی ہے۔ دونوں جگہ سیاق و سباق واضح طور پر بتاتا ہے کہ اس کے مخاطب کفار ہیں اور ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ خدا کی یہ سنت ہے کہ وہ کسی خوشحال قوم کی حالتِ نعمت کو اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ اپنی بری حرکتوں اور گناہوں سے خود کو ان نعمتوں کے لیے غیر مستحق ثابت نہ کردیں۔ جب وہ ایسا کر تے ہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ خدا ان سے وہ نعمت چھین کر انہیں مبتلائے عذاب کر دیتا ہے۔
ملاحظہ ہو دونوں آیات مع اپنے سیاق کے اور ان کے بارے میں جمہور مفسرین کای آراء:
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ (سورہ الرعد سورہ 13 آیت 11)
ان پر ان کے آگے اور پیچھے سے امر الٰہی کے مؤکل لگے رہتے ہیں جو باری باری سے ان کی نگرانی کرتے ہیں۔ اللہ کسی قوم کے ساتھ اپنا معاملہ اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی روش میں تبدیلی نہ کر لے اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی آفت لانے کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی اور ان کا اس کے مقابل میں کوئی بھی مددگار نہیں بن سکتا۔ (اصلاحی)
كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّـهِ فَأَخَذَهُمُ اللَّـهُ بِذُنُوبِهِمْ إِنَّ اللَّـهَ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ وَأَنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (سورہ الانفال، سورہ 8 آیت 52 تا 53)
ان کی حالت ایسی ہے جیسے فرعون والوں کی اور ان سے پہلے کے (کافر) لوگوں کی (حالت تھی) کہ انہوں نے آیاتِ الہیہ کا انکار کیا سو خدا تعالیٰ نے ان کے(ان) گناہوں پر ان کو پکڑ لیا بلاشبہ الله تعالیٰ بڑی قوت والے سخت سزا دینے والے ہیں۔ (۵۲) یہ بات اس سبب سے ہے کہ الله تعالیٰ کسی ایسی نعمت کو جو کسی قوم کو عطا فرمائی ہو نہیں بدلتے جب تک کہ وہی لوگ اپنے ذاتی اعمال کو نہیں بدل ڈالتے اور یہ امر ثابت ہی ہے کہ الله تعالیٰ بڑے سننے والے بڑے جاننے والے ہیں۔ (تھانوی)
ابن، کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
يُخْبِرُ تَعَالَى عَنْ تَمَامِ عَدْلِهِ، وَقِسْطِهِ فِي حُكْمِهِ، بِأَنَّهُ تَعَالَى لَا يُغَيِّرُ نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى أَحَدٍ إِلَّا بِسَبَبِ ذَنْبٍ ارْتَكَبَهُ، كَمَا قَالَ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْوَالٍ} [الرَّعْدِ:11] (تفسیر ابن کثیر، دار طيبة للنشر والتوزيع،1999، جلد 4، ص 78)
"اللہ تعالیٰ اپنے ہر حکم میں عادل اور منصف ہے۔ جب تک بندہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے وہ اسے دی ہوئی نعمت نہیں چھینتا۔ جیسا کہ فرمایا: إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْوَالٍ
صاحبِ کشاف لکھتے ہیں:
يعنى ذلك العذاب أو الانتقام بسبب أن الله لم ينبغ له ولم يصحّ في حكمته أن يغير نعمته عند قوم حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بهم من الحال
"یعنی کہ یہ عذاب اور انتقام کسی سبب سے ہوتا ہے ۔ اللہ کے یہ شایانِ شان نہیں اور نہ یہ اس کی حکمت کے مطابق درست ہے کہ کسی قوم کی حالتِ نعمت کو بدل ڈالے سوائے یہ کہ وہ لوگ خود اپنا حال بدل (یعنی خراب) کر لیں۔" (کشاف، دار الكتاب العربي - بيروت1407،جلد 2، ص 230)
مولانا مودوی سورہ انفال کی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
یعنی جب تک کوئی قوم اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کی نعمت کا غیر مستحق نہیں بنا دیتی اللہ اس سے اپنی نعمت سلب نہیں کرتا۔ (تفہیم القرآن، ص 152، 153، ادارہ ترجمان القرآن لاہور)
سورہ الرعد کی اسی آیت کے تحت مولانا اصلاحی لکھتے ہیں:
" یہ قوموں کے عذاب کے معاملے میں اصل سنت اللہ کی وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالیٰ اپنا معاملہ کسی قوم کے ساتھ اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی روش میں تبدیلی نہ کر لے۔ جب قوم خود اپنی روش بدل لیتی ہے اور تنبیہ و انذار کے باوجود متنبہ نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس پر وہ عذاب بھیجتا ہے جس کو کوئی طاقت بھی دفع نہیں کر سکتی۔"( دیکھیے تدبر قرآن، تفسیر سورہ الرعد، آیت 11)
خلاصہء کلام یہ ہے کہ مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر اپنا ایک مفہوم رکھتا ہے جو فی نفسہ درست ہے لیکن یہ سمجھنا کہ قرآن کی محو بالا آیات کی مصداق بھی وہی ہے، غلط فہمی ہے۔ اس آیت کے مفہوم او مصداق کے تعین میں سلف و خلف میں کسی کا اختلاف نہیں۔ مولانا کے شعر کی تائید میں قرآن کی دیگر آیت پیش کی جاسکتی ہیں لیکن درج بالا آیات کے مفہوم کا کوئی معنوی اشتراک مولانا کے شعر کے ساتھ نہیں ہے۔



انشائیہ : ڈاگ سنٹر

انشائیہ : ڈاگ سنٹر
بھانت بھانت کے کتے بھانت بھانت کے لہجوں میں بھونک بھونک کر اپنے وجود، اپنی ذات اور نسل کی پہچان بتا رہے تھے۔ کچھ کتے شانِ بے نیازی سے آنے جانے والوں پربتجاہلِ عارفانہ ایک آدھ نظر ڈال لیتے اور پھر اپنا راتب کھانے میں مصروف ہو جاتے اور کچھ سستی کے مارے اپنے پنجوں پر منہ رکھے خود پر بیٹھنے والی مکھیوں کو محض بھنووٴں کی حرکت سے اڑانے پر اکتفا کر رہے تھے۔کسی ڈاگ سنٹر میں آنے کا یہ ہمارا پہلا تجربہ تھا۔
ہوا یوں کہ آس پڑوس میں پڑنے والے مسلسل ڈاکوں اور چوریوں سے پریشان اور نجی محافظوں کی مشکوک وفاداریوں سے نالاں ہو کر ہم نےایک سگ پرست اور سگ شناس دوست کے مشورے سے رکھوالی کے لیے ایک عدد اعلی نسل کا کتا رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کےلیے ہمیں اس ڈاگ سنٹر کی زیارت کے شرف سےبامشرف ہونا پڑا۔جہاں تک آس پڑوس میں ہونے والی چوریوں کا تعلق ہے تو شنید تھی کہ یہ کام کتوں کے رکھوالے، اپنےکتوں کی فروخت اور دام بڑھانے کے لیے خود کروا رہے تھے۔ بہرحال کتے اب ناگزیر ہو چکے تھے۔
حفاظت کی غرض سے تیار کیے جانے والے ان کتوں کے تحفظ کے لیے قائم کردہ کئی حفاظتی حصاروں اور مراحل سے گزر کر ہم یہاں پہنچے تھے۔ اپنی شناخت پر اٹھنے والی شکی نگاہوں کی تسلی کرواتے کرواتے ہمیں اپنا آپ بھی مشکوک سا لگنے لگا تھا۔ تاہم، اپنا گرتا ہوا اعتماد بمشکل اور بظاہر بحال کرتے ہوئے ہم کتوں کی فوج ظفر موج کو ملاحظہ کرنے لگے۔
کتوں کی مختلف نسلوں سے تو ہم واقف تھے نہیں،اس لیے ان کے مزاجوں سے ان کی ذات اور وفاداری کا اندازہ کرنے لگے۔دیکھا کہ کچھ کتے کان اور دم اونچےکیے خواہ مخواہ چاک و چوبند کھڑےتھے، ہر آنے جانے والے پر غرّاتےیا خشمگین نظروں سے گھور کر دیکھتے۔ اس سے اور کچھ نہیں تو ان کی موجودگی کا احساس ضرور ہو رہا تھا ،ورنہ شاید ان پر نظرہی نہ پڑتی۔
کچھ کتے عمر رسیدہ ہو چکے تھے ،مگر پھر بھی بہت اچھے ماحول میں رکھے ہوےٴ تھے۔ یہ بڑے آرام سے زبانیں لٹکاےٴ بیٹھے تھے۔ ہر ایک آنے جانے والے کو بے التفاتی سے گھورے چلےجا رہے تھے۔ کبھی کبھی ڈانٹنے کے انداز میں کسی نو آموز کتے یا نووارد شخص پر بھونک بھی دیتے۔ان کا بھاری پڑتا جسم ان کی کمزور پڑتی ٹانگوں کے لیے ایک ناگوار بوجھ بنا ہوا تھا، جسے وہ بظاہر بڑی متانت سے سنبھالے ہوے تھے۔ ان کا کوئی کام معلوم نہیں پڑ رہا تھا ۔ پوچھنے پربتایا گیا کہ ان کی بےکاری کے باوجود ان کا یہ پروٹوکول ان کی سابقہ خدمات کی بنا پر دیا گیا تھا۔ کتوں کے نگرانوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ ایک ریٹایرڈ کتے کے اخراجات اور راتب پر اٹھنے والا خرچ ایک جوان کتے کے مقابلے میں تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔۔بہرحال، ان کا استحقاق کسی طور مجروح نہیں ہونے دیا جارہا تھا۔
ہمیں بتایا گیا کہ کتوں میں بھونکنے والے کتے کونسے ہیں اورکاٹنے والے کونسے۔ اور یہ کہ جو بھونکتے ہیں وہ کب کاٹ سکتے اور جو کاٹتے ہیں وہ کتنا بھونک لیتے ہیں۔نیز یہ بھی کہ کس وقت وہ بھونکنے کے ساتھ کاٹتے ہیں اور کاٹنے کے ساتھ بھونکتے ہیں۔ ہر کتے کی اوقات اور موڈ اس لحاظ سے مختلف تھے۔
ڈاگ سنٹر کے کتے باہر سے آنے والے واردین پر بہت غصہ ہونے لگے تھے۔ وجہ یہ معلوم ہوئی کہ ڈاگ سنٹر کی چار دیواری میں پڑے پڑے انہیں باہر کی دنیا سے زیادہ تعلق نہیں رہتا،اس لیے باہر والوں کو زیادہ دیر برداشت نہین کر پاتےاورانہیں دیکھتے ہی کان، دم کھڑے کر کے بھونکنے لگتے ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ بھونکتے بھونکتے جوش میں آ کر گلےکی رسی کہیں ڈھیلی پڑ گئی تو کاٹ بھی لیا۔ ایسے حادثات رونما ہونے کی وجہ سے لوگ ڈاگ سنڑ کا رخ کم کرنے لگے تھے ، تاہم، جب آنا ہی پڑتا تو خود حفاظتی اور خود شناختی کا مقدور بھر بندوبست کر کے آتے ۔
کتوں کے نگرانوں نے ہمیں تربیت یافتہ کتوں کی تربیت کا مظاہرہ بھی دکھایا۔ کتے اپنے نگران کے حکم پر بلا چوں چراں عمل کرتے۔ حکم کتنی ہی بار دیا جاتا اور کتنا ہی بے تکا کیوں نہ ہوتا، وہ کر گزرتے۔ حتیٰ کہ ایک ہلکے سے اشارے پر اپنے ہی بھائیوں پر بھی پِل پڑتے ۔ یہ دیکھ کر ہم تربیت کاروں کی تحسین کیے بغیر نہ رہ سکے۔
ہمیں بتایا گیا کہ کتوں کا آپس میں ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرنے کا ایک مخصوص طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ یہ ایک دوسرے کا پچھواڑہ سونٖگھ کر ایک دوسرے کی ذات، اوقات اور علاقے کا پتا چلا لیتے ہیں ۔ وہیں یہ بھی طے کر لیتے ہیں کہ کس نے اپنی دم ٹانگوں میں دبا کر آداب بجا لانا ہے اور کس نے سر اٹھا کر دوسرے سے اس کی اوقات کے مطابق سلوک کرنا ہے۔
کتوں کی مخصوص عادات کے بارے ہمیں یہ آگاہی دی گئی کہ کتے جہاں ہوتے ہیں اس علاقے کےاطراف میں مختلف جگہوں پر پیشاب کرکے اپنی سرحد قائم کر لیتے ہیں۔ اور اگر کوئی دوسرا کتا اس علاقے سے گزرے تو بلا اشتعال بھونکنا شروع کردیتے ہیں، اور اگر کھلے ہوئے ہوں تو لڑ بھڑ کر باہر سے آئے کتے کو نکال باہر کرتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ کتے کی دم کی پوزیشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتا کس موڈ میں ہے۔ دم کھڑی ہو تو وہ غصے یا اعتماد میں ہوگا۔ اس حالت مین اس کے منہ نہیں لگنا چاہیے. دم درمیان میں ہو تو کتا کی سپرٹ کم ہوتی ہے۔ اس حالت میں اسے کسی بےباک کے لئے راضی کیا جا سکتا ہے. دم مسلسل ہل رہی ہو تو کتا خوشامد کے موڈ میں ہے۔ اس حالت میں اگر اس سے کتوں والی کی جائے تو برا نہیں مناتا. دم اگر ٹانگوں میں دبی ہو تو کتا ڈرا ہوا ہوتا ہے۔ اس حالت میں بهی اسکے زیادہ قریب نہیں جانا چاہئے. یہ اس وقت دفاعی نفسیات کا شکار ہوتا ہے اور آپ کو بهی اپنا دشمن سمجه کر کاٹ سکتا ہے. کتا اگر اپنی ہی دم کے پیچھے گول گول گھوم رہا ہو تو سمجھ جائیے کہ کتا بور ہو رہا ہے۔
بہت تلاش و جستجو اور لیت و لعل کے بعد ایک کتا ہمیں پسند آ ہی گیا جو ڈیل ڈول کے اعتبار سے بھی کتا ہی لگتا تھا۔زیادہ تر اسی نسل کے کتے اس ڈاگ سنٹر میں رکھے گئےتھے۔ دام چکا کر ہم اس کتے کو چمکارتے پچکارتے اور اس کے منہ لگنے سے بچتے بچاتے اسے گھر لے آےٴ۔
ایک ہفتے بعد ہمارے وہ سگ پرست اور سگ شناس دوست ، جو ہماری کتوں کی خریداری کے وقت شہر سے باہر تھے،ہم سے ملنے ہسپتال آےٴ۔انہوں نے ہمیں بتایا کہ جس نسل کا کتا ہم لے کر آےٴ تھے وہ ایسا کتا تھا جو چوروں اور ڈاکووٴں پر تو فقط بھونکتا ہی ہے، مگر جب کاٹتا ہے تو اپنے ہی مالک کو کاٹتا ہے۔ان تاخیری معلومات پر ہم نے اپنے دوست کا شکریہ ادا کیا اور ایک اور انجکشن اپنے پیٹ میں لگوا لیا۔