Monday 26 October 2015

قرآن کے قطعی الدلالۃ اور ظنی الدلالۃ کی بحث، حافظ زبیر صاحب کا موقف اور اس پر میرا تبصرہ

24 اکتوبر، 2015 کو ڈاکٹر حافظ محمد زبیر نے المورد کے زیر انتظام ویبینار (webinar) سے خطاب فرمایا۔ موضوع تھا:
ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے کہ کیا:
۱- قرآن مجید قطعی الدلالۃ ہے۔
۲۔ قرآن مجید ظنی الدلالۃ ہے۔
۳۔ قرآن مجید قطعی الدلالۃ اور ظنی الدلالۃ دونوں ہے۔
قطعی الدلالۃ کا مطلب:               کلام کے قطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ کی اپنے معنی اور مفہوم پر دلالت اس طرح  متعین طریقے سے ہو کہ کسی اور معنی اور مفہوم کا احتمال نہ ہو۔
ظنی الدلالۃ کا مطلب:                                کلام کے ظنی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کلام کے معنی اور مفہوم میں ایک سے زیادہ احتمالات پائے جاتے ہوں یا پائے جا سکتے ہوں۔
موضوع کی اہمیت :
یہ ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ قرآن کی حیثیت پر یہ براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
قرآن اپنے بارے میں کہتا ہے کہ
وہ میزان اور فرقان ہے:
اللَّـهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ (42:17)
اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری، یعنی میزان نازل کی ہے ۔
بَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (25:1)
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان امتیاز کر دینے والی کتاب اتاری تا کہ وہ اہل عالم کے لیے ہوشیار کر دینے والا بنے!
میزان اور فرقان ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ اسی کے ذریعے متنازع امور کے فیصلے کیے جائیں گے:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ(5:48)
 اور ہم نے، (اے پیغمبر) تمھاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے، قول فیصل کے ساتھ اور اُس کتاب کی تصدیق میں جو اِس سے پہلے موجود ہے اور اُس کی نگہبان بنا کر، اِس لیے تم اِن کا فیصلہ اُس قانون کے مطابق کرو جو اللہ نے اتارا ہے اور جو حق تمھارے پاس آچکا ہے، اُس سے ہٹ کر اب اِن کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت،یعنی ایک لائحۂ عمل مقرر کیا ہے۔ اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا، مگر( اُس نے یہ نہیں کیا)، اِس لیے کہ جو کچھ اُس نے تمھیں عطا فرمایا ہے، اُس میں تمھاری آزمایش کرے۔ سو بھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم سب کو (ایک دن) اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا سب چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔
یعنی دینی معاملات میں تمام نزاعات، اختلاف، احتمالات، اور مخمصات کے فیصلہ کےلیے آخری اور فیصلہ کن حیثیت قرآن کی ہے۔ لیکن اگر قرآن محتمل الوجوہ ہے۔ اس کی آیات کے ایک سے زیادہ مفاہیم ہوتے ہیں، جو باہم متخالف بلکہ متضاد بھی ہو سکتے ہیں تو قرآ ن یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے ختم ہو جاتی ہے۔ بھلا ایک جج یا قاضی، جس کی بات قطعی نہ  ہو، اس کی بات کے ایک سے زیادہ مفاہیم نکالے جا سکتے ہوں، وہ کیسے کسی بھی مخمصے یا اختلاف کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ فریقین اس کے بنان کی اپنی اپنی توجیہات کر کےاپنے اپنے مطالب نکالیں گے اور کوئی فیصلہ نہ پائے گا۔  جو قرآن کو  ظنی الدلالۃ مانتے ہیں ان کے  پاس اپنے موقف کے کچھ  دلائل ہیں جن کا ایک ضروری خلاصہ جناب حافظ صاحب کے بیان میں آ گیا ہے۔ ذیل میں ہم ان کے بیان کے خلاصہ پیش کرتے ہیں اور پھر اس پر ہم اپنا تبصرہ بھی پیش کریں گے۔
حافظ صاحب کے بیان کا خلاصہ :
لیکن اگر قرآن کی حافظ صاحب کے بیان کا خلاصہ میری سمجھ کے مطابق یہ ہے:
کلام اپنے متکلم کے نزدیک قطعی ہوتا ہے لیکن مخاطبین کے لحاظ سے قطعیت کا دعوی دو وجہ سے غلط ہے:
1
۔ انسانی زبان کا وسیلہ اظہار بنانا جس میں ابلاغ کی کوتاہیاں ناگزیر ہیں
2
۔ انسانی فہم کا ناقص ہونا
یعنی قرآن اس وجہ  وہ اس لیے ظنی ہو گیا کہ اس کے بیان کے لئے انسانی زبان اختیار کی گئی۔ اور یہ انسانی زبان کی خامی یا قصور ہے کہ اس میں بیان کر دہ بات بعض اوقات ظنی ہو جاتی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ انسانی فہم ناقص ہے۔ جو کچھ یہ سمجھتا ہے اس میں قطعیت کا دعوی کرنا غلط ہے۔
اس لحاظ سے قرآن ، خدا کے لیے قطعی ہے۔ اس کے رسول کے لیے بعد از بیان قطعی ہے، لیکن دیگر مخاطبین کے لیے کلی طور پر قطعی ہر گز نہیں۔
قرآ ن کا کچھ حصہ قطعی ہے اور کچھ ظنی۔
قرآن کو کلی طور پر قطعی الدلالۃ ماننا اور کلی طور پر ظنی الدلالۃ ماننا  یہ دونوں دعوے غلط، بلکہ گمراہی اور ضلالت ہیں۔
قرآ ن کی وہ آیات جن میں مفسرین کا کوئی اختلاف نہیں وہ قطعی ہیں، اور جن میں اختلاف ہوا ہے وہ ظنی ہیں۔
قرآن کی کسی آیت کی قطعیت اگر ایک مفسر کے لیے ثابت ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرے کے لیے بھی وہ حجت بن جائے۔ یعنی یہ قطعیت ذاتی اور داخلی نوعیت کی ہے۔ اور اس میں بھی خطا کا احتما ل ہےاور یہی احتمال قرآن کو ظنی بناتا ہے۔
قرآن کی قطعیت کا فیصلہ اس کےسیاق و سباق کے علاوہ خارجی ذرائع سے بھی ہوتا ہے، یعنی سنت ِ متواترہ اور حدیث سے۔ مثلا الصلوۃ، الصوم، کا اصطلاحی استعمال سنت سے معلوم ہونے کی بنا پر قطعی ہوا ہے، ورنہ یہ بھی ظنی ہی رہتا۔ حدیث بھی اگر قطعی الثبوت ہے تو قرآن کی کسی آیت کی ظنیت کو قطعی بنا سکتی ہے۔
قرآن فہمی کے ذرائع اختیار کر کے غوروفکر کرنے سے قرآن کی ظنی آیات کو قطعی المعنی بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کلی طور پر ممکن نہیں۔ قرآن کی کچھ حصہ ظنی رہے گا اور تاقیامت رہے گا۔ مثلا آیاتِ متشابہات کا حقیقی معنی معلوم کرنا ممکن نہیں تاہم، ان کا معنی ء مقصود سمجھ آ جاتا ہے۔
اس لیے یوں کہنا زیادہ بہتر ہے کہ قرآن کلی طور پر قطعی الدلالۃ نہین لیکن کلی طور پر قطعی القصد ہے، یعنی معنی مقصود سمجھ آ جاتا ہے۔ نیز ایک مفسر جو معنی اپنے نزدیک قطعی طور پر متعین کرے، اس میں خطا کا احتمال رکھے اور دیگر معانی کا احتمال تسلیم کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب کے اس موقف پر ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ:
حافظ صاحب کی ساری گفتگو کا مرکزی نکتہ یہ ہے :
قرآن کا کچھ حصہ ظنی الدلالۃ ہے اور وہ رہے گا  اس کی وجہ انسانی فہم کا حقیقت ِ مطلقہ  کے حصول کی  نارسائی اور انسانی زبان کے ابلاغی نقائص ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن اللہ کے نزدیک قطعی الدلالۃ ہے اور اس کے رسول کے نزدیک بعد از بیان قطعی الدلالۃ ہے۔
اگر قرآن کی کچھ آیات قطعی الدالالۃ ہیں اور کچھ ظنی الدلالۃ  ہیں ،تو قرآن کی حیثیت بطورِ میزان اور فرقان ختم ہو جاتی ہے۔ جو کہ قرآن کاحقیقی منصب ہے۔ جیسا کہ اوپر مذکور  ہوا۔ چونکہ یہ تعین کوئی کر نہین سکتا کہ قرآن کی کون سی آیات قطعی ہیں اور کون سے ظنی۔ اس لیے  جب بھی کسی مسئلے کے تصفیے کے لیے قرآن کی آیت پیش کی جائے گی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تو ظنی الدالۃ ہے۔ اس میں تو دیگر احتمالات پائے جاتے ہیں ۔بھلا وہ بات جس کے ایک سے زیادہ مفاہیم ہوں وہ جج اور قاضی کیسے بن سکتی ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ حافظ صاحب کی ساری بحث محض اعتباری  یا اضافی نوعیت کی ہے۔ یعنی قرآن خدا کے نزدیک تو قطعی الدلالۃ  ہے تو درحقیقت قطعی ہی ہوا۔ یہ تو  مخاطبین کا نقصِ فہم اور زبان کے ابلاغی مسائل ہیں، جس کی وجہ سے احتمالات پیدا ہو جاتے ہیں۔  حافظ صاحب نے احتمالات کے پیدا ہونے  کی وضاحت میں جن فلسفیانہ دلائل کا سہارا لیا ہے ان کے مطابق تو  کچھ بھی قطعی نہیں رہتا۔ تشکیکیت اور سوفسطائیت کے مطابق تو ہم جو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں وہ بھی محض اعتباری ہوتا ہے، حقیقیت میں وہ کیا ہے اس کا ادراک بھی انسانی ذہن کے لیے ناقابلِ رسا ہے۔اس پہلو سے دیکھئے تو برٹرنڈ  رسل کے مطابق ریاضی بھی قطعی نہیں، اعداد بھی قطعی نہیں۔ اسی طرح الفاظ اور معنی کے ربط میں بھی اتنے ابہام پیدا کر دئے گئے ہیں کہ زبان بذاتِ خود ظنی ہو جاتی ہے۔  اس لحاظ سے پورے قرآن کی ظنی سمجھنا ہی درست نتیجہ  ہو سکتا ہے ۔ لیکن پورے قرآن کی ظنی ماننے والوں کو حافظ صاحب گمراہ گردانتے ہیں ۔  اس ک بدیہی نتیجے سے بچنے کے لیے  حافظ صاحب نے یہ حل نکالا ہے کہ جن آیات  کے معنی اور مفہوم پرمفسرین  کا اجماع ہے اور  جن کے ایک ہی معانی اور مفاہیم سمجھے گئے ہیں، وہ تو قطعی ہیں اور جن مفاہیم کے تعین میں ان کے ہاں اختلاف ہوا ہے وہ آیات ظنی ہیں۔ لیکن کیا سب مفسرین کا فہم بھی ایک احتمال ہی نہیں؟ مثلا ساری انسانیت  صدیوں تک یہ سمجھتی رہی کہ سورج کو جس جگہ وہ دیکھتے ہیں وہ  وہیں ہوتا ہے لیکن سائنس نے بتایا کہ وہ وہاں آٹھ منٹ پہلے ہوتا ہے جہاں ہم اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔  اسی طرح کیا سارے مفسرین کا فہم مل کر بھی غلط نہیں ہو سکتا؟
لیکن حقیت یہ ہے کہ  قرآن کی ظنی الدلالۃ ثابت کرنے کے لیے مدعا کی بنیاد  ان سوفسطائی  نظریات پر رکھنا درست نہ ہوگا۔ انسانی عقل و فہم اعتباری سہی، لیکن یہ اعتباری فہم بھی معانی کی قطعیت کی تفہیم کے لیے کافی ہے۔  یہ نظریات ،  الفاظ  اور ان کے معانی سے حاصل ہونے والے  مشترکہ فہم  کی قطعیت میں ابہام پیدا نہیں کر سکتے۔  لفظ کے مختلف استعمالات میں انسانی عقل عمومًا دھوکا نہین کھاتی۔   جب کھاتی بھی ہے تو تنبیہ کرنے پر درست مفہوم سمجھ جاتی ہے ۔'شیر جنگل کا بادشاہ ہے 'اور' کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے' میں شیر کا مفہوم سمجھنے میں انسانی فہم دھوکا نہیں کھا سکتا۔ اور اگر کوئی شخص  دھوکا کھا بھی جائے تو اس سے یہ کلام ظنی نہیں ہو جاتا بلکہ اس  شخص کے فہم اور علم کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
انسان کے اسی فہم پر بھروسہ کر کے ہی خدا نے اسے  اپنا کلام عطا کیا ہےتا کہ وہ اس سےوہی مفہوم سمجھے گا جو متکلم کی مراد ہے۔ لیکن یہ انسان کی کوتاہی، قلت محنت، قلتِ تدبر، تعصب، ھوائے نفس وغیرہ کے حجاب  ہیں جو احتمالات پیدا کردیتے ہیں ۔  احتمالات کے پیدا ہونے سے قرآن ظنی نہیں ہوجاتا جو فی نفسہ قطعی ہے۔
اگریہ انسان کے بس سےباہر ہے کہ وہ قرآن کے  قطعی معانی  تک پہنچ سکے  تو خدا نے انسان کو تکلیف مالا یطاق دی ہے۔لیکن ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ قرآن خود  یہ اعلان کرے کہ وہ سمجھنے کے لیے نازل ہوا:
كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (2:242)
اللہ اِسی طرح تمھارے لیے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم سمجھنے والے بنو۔
اور سمجھنے ہی کے لیے موزوں کیا گیا:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ (54:17)
ہم نے اِس قرآن کو یاددہانی کے لیے نہایت موزوں بنادیا ہے۔ پھر کیا ہے کوئی یاددہانی حاصل کرنے والا؟
پھر اس کی تفہیم کے لیے اللہ نے جو وسائل اور ذرائع اختیار کیے وہ   کچھ یوں ہیں:
وہ ایک واضح کلا م ہے:
كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (11:1)
 یہ کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں، پھر خداے حکیم و خبیر کی طرف سے اُن کی تفصیل کی گئی ہے۔
وہ عربی مبین میں نازل ہوا ہے:
بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ (26:195)
صاف اور واضح عربی زبان میں۔
وہ سمجنے کے لیے موزوں ہے:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ (54:17)
ہم نے اِس قرآن کو یاددہانی کے لیے نہایت موزوں بنادیا ہے۔ پھر کیا ہے کوئی یاددہانی حاصل کرنے والا؟
اس میں تضاد پایا نہیں جاتا:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (4:3)
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں وہ بہت کچھ اختلاف پاتے۔
اس کے لیے شک میں مبتلا ہونے کی ضرور ت نہیں:
الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِينَ (3:60)
تمھارے پروردگار کی طرف سے یہی حق ہے ، لہٰذا تم کسی شبہے میں نہ رہو۔
اس دعوتِ فکر کے بعد  وہ قطعیت کے ساتھ اپنے معانی اور مفاہیم بھی نہ بتائے، یہ نہیں ہو سکتا ۔
 اپنے فہم کے نقص، یا قلتِ علم و تدبر کو قرآن کا نقص قرار دینا  قطعی طور پر غلط ہے۔ قرآن  بہرحال، قطعی الدلالۃ ہے ۔ ہمارا کام اس قطعیت  تک رسائی حاصل کرنا ہے۔
حافظ صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ محنت و تدبر کے بعد کچھ ظنی الدالالۃ آیات قطعی  الدلالۃ ہو سکتی ہیں،  تواس امکان کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ کوئی شخص اپنی محنت اور تدبر سے قرآن کی تمام آیات کے قطعی مفاہیم تک  بھی پہنچ سکتا ہے۔مسئلہ صرف ہے کہ انسان  معنی اور مفہوم کی قطعیت تک توپہنچ سکتا ہے لیکن اس حقیقت کو جان نہیں سکتا ہے کہ آیا وہ اس قطعیت  کو واقعتًا پا   بھی گیا ہے۔ اسی لیے  کسی کو بھی اپنے  فہم ِ قرآن کو دوسروں پر مسلط کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری  طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ  دوسروں کے لیے احتمال اور اختلاف کے حق تو تسلیم ہے، لیکن قرآن میں احتمالات کی گنجایش تسلیم نہیں۔ چنانچہ  اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا ایک مفسر اپنے اخذ کردہ معنی کو قطعی جان کر کسی دوسرے کے دوسرے معنی کی نفی تو لازمًا کرے گا، تاہم اپنے اخذ کردہ مفہوم کو دوسرے پر بہرحال مسلط نہں کرے گا۔ یہ ماننا کہ دوسرا شخص غلط سمجھا یہ  اس سے بہتر ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ قرآن بیک وقت ایک سے زیادہ احتمالات دے کر اپنے قاری کو کسی صریح اور قطعی نتیجے تک اصلًا پہنچنے نہین دینا چاہتا۔
رہی بات آیاتِ متشابہات کی تو ان متشابہ آیات کے بارے میں بھی اللہ نے  یہی فرمایا ہے کہ کوئی ان کی تاویل یعنی ان کی  حتمی  حقیقت  سے واقف نہیں ہو سکتا، نہ کہ ان کے قطعی معنی نہیں سمجھ سکتا۔ ہمارے نزدیک آیاتِ متشابہات سے مراد عالمِ غیب کے حالات و واقعات ہیں، جن کی حقیقت تو ہم جان نہیں سکتے لیکن ان کے بارے میں قرآ  ن کے بیان کو قطعیت سےسمجھ ضرور سکتے ہیں۔
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ(3:7)
وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری ہے جس میں آیتیں محکم بھی ہیں جو اِس کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور (اِن کے علاوہ) کچھ دوسری متشابہات بھی ہیں۔ سو جن کے دل پھرے ہوئے ہیں، وہ اِس میں سے ہمیشہ متشابہات کے درپے ہوتے ہیں، اِس لیے کہ فتنہ پیدا کریں اور اِس لیے کہ اُن کی حقیقت معلوم کریں، دراں حالیکہ اُن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (اِس کے بر خلاف) جنھیں اِس علم میں رسوخ ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم اِنھیں مانتے ہیں، یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے، اور ( حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کی چیزوں کو) وہی سمجھتے ہیں جنھیں اللہ نے عقل عطا فرمائی ہے۔
رہا یہ مسئلہ کے سنتِ متواترہ کے علاوہ حدیث یعنی اخبارِ احاد بھی اگر قطع الثبوت ہوں تو قرآن کے ظنی کو  قطعی میں بدل سکتی ہیں،  تو ہمارے نزدیک یہ ایک مغالطہ ہے۔احادیث قطعی  الثبوت بھی ہوں تو ان سےحاصل ہونے والاعلم ظنی اور نظری ہوتا ہے۔روایت بالمعنی کے مطلب  ہی اس میں ظنیت کو تسلیم کر لینا ہے۔ چنانچہ ظنی ذریعہ سے کسی ظنی مفہوم کو قطعی نہیں بنایا جا سکتا۔  تاہم، صحیح احادیث سے قرآن کے مفاہیم کو سمجھنے میں اس کے سیاق و سباق کے بعد سب سے زیادہ مدد ملتی ہے۔
راقم: ڈاکٹر عرفان شہزاد، پی ایچ ڈی اسلامیات، نمل، اسلام آباد۔

ای میل:irfanshehzad76@gmail.com

Sunday 25 October 2015

ریکارڈ توڑنا منع ہے

كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ 


ہر آن وہ ایک نئی شان میں ہے 
جستجو ہے خوب سے خوب تر کہاں
کہتے ہیں ریکارڈ ٹوٹنے کے لئے بنتےہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شعبہ ء زندگی میں اگلے ریکارڈ ٹوٹتے ہیں، نئے بنتے ہیں، پھر نئے ریکارڈ بھی ٹوٹتے ہیں اور پھر مزید نئے ریکارڈ بنتے ہیں۔ ہر ریکارڈ کسی عالی حوصلہ کو چلنج دیتا رہتاہے کہ آؤ اور توڑو۔ اور ہر بار کوئی عالی حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ دنیا کی ساری ترقی اسی جذبے اور حوصلے کی مرہونِ منت ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک ذہانت کا سلسلہ ہے کہ چلا ہی چلا جاتا ہے، کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ نئی نسل ان سے زیادہ زود فہم، اور باصلاحیت ہے۔ گویا
كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ




کا ایک نمونہ یہ مظہر بھی ہے۔ 
ریکارڈ توڑنے کا یہ اشتیاق اور ولولہ ہی تو ہے جو کسی کو ماونٹ ایورسٹ پر پہنچاتا ہے تو کسی کو چاند پر، کوئی تیز ترین سنچری کا ریکارڈ وقت مزید کم کرنے پر تلا ہوا ہے، تو کوئی دوڑ کے مقابلے کے ریکارڈ کو توڑنے میں وقت کی رفتار سے مقابلے بازی میں لگا ہوا ہے۔
ذرا سوچئے کہ اگر ریکارڈ نہ ٹوٹتے تو ایک بار ریکارڈ بن جانے کے بعد کسی بھی کھیل یا شعبے میں کیا دلچسپی رہ جاتی۔ حوصلے پست ہوجاتے۔ لوگ بور ہوجائے۔
لیکن ایک شعبہ ایسا ہے کہ اس میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں جو ریکارڈ ایک بار بن گیا وہ اٹوٹ مانا جاتا ہے۔نئی نسلوں کے نئے حوصولوں کو پرواز سے پہلے ہی حدِّ پرواز بتا دی جاتی ہے کہ اس سے آگے ان کے پر جل جائیں گے۔ چنانچہ وہ اس سے اوپر بلند پروازی کا سوچتے بھی نہیں ۔ اور اگر کہیں کوئی اپنے حوصلوں کی بے تابی سے مجبور ہوکرغلطی سے اک ذرا زیادہ اونچی اڑان بھر لے تو تیز قینچیوں سےاس کے پر کاٹ ڈالےجاتے ہیں۔



یہ شعبہ علمِ دین کا شعبہ ہے۔ یہاں جو علمی ریکارڈ اسلاف نے قائم کردیئے ہیں وہ حتمی مان لیئے گئے ہیں۔ وہ اب ٹوٹ نہیں سکتے۔ہمیں بتایا جاتا ہےکہ وہ خدا جو اس ملعون دنیا کے دوسرے تمام شعبوں کو اعلٰی سے اعلٰی تر ذہانت اور حوصلے عطا کرتا چلا جا رہا ہے وہ فیاض خدا پنے ہی دین کے لیے اس فیاضی پر آمادہ نہیں۔ہر نئی نسل کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ مانے کہ جو لوگ اتفاق سے اس سے پہلے پیدا ہوگئے تهے وہ علم، ذہانت، قابلیت اور تقوی میں اس سے اتنے برتر تھے کہ اس کا ان کے کسی معیار کو چھو لینےکا سوچنا بھی گناہ ہے۔ اور اِن کے پاس اْن کی خوشہ چینی کے سوا اورکوئی چارہ نہیں۔ 


سوچئے کہ کسی طالبِ علم کو سبق کے پہلے ہی دن جب یہ بتا دیا جائے کہ آپ کا کام صرف فقہی عبارات کی نقول پیش کرنا ہے۔ اجتہاد کا ریکارڈ بن چکا اس کو توڑنے کے لیے مطلوبہ ذہانتیں بنانا خدا نے چھوڑ دیا ہے،تو بتائیے کہ اس کا علمی حوصلہ ، ذوق اور تجسس کا خون نہیں ہو جائے گا۔دینی علمی شعبہ میں زوال کی وجہ نالائقی نہیں، یہ عقیدہ ہے کہ بعد والوں کا کوئی کام اس کے سوا نہیں کہ اگلوں کی عبارات اور فتاوی نقل کر دیئے جائیں، کیونکہ ریکارڈ توڑنا منع ہے.
راقم: ڈاکٹرعرفان شہزاد، پی، ایچ ڈی اسلامیات، نمل، اسلام آباد، پاکستان




فون: 923215188645

Tuesday 6 October 2015

مفتی نامہ

مفتی نامہ  1 
زبانی حفظ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے مدرسے کے مفتی صاحب نے حفظ کی کلاس کے حافظ صاحب کو ان کی کچھ نازیبا حرکتوں کی وجہ سے نکال دیا تو مجھے حکم ہوا کہ حفظ کی کلاس سنھالوں جب تک کسی حافظ صاحب کا انتظام نہیں ہو جاتا۔ میں حافظ نہیں تھا۔ تاہم حکم پر عمل کیا۔ ایک بچہ جس نے 2 یا 3 سپارے حفظ کر لیے ہوئے تھے مجھ سے سبق لینے آیا۔ میں نے کہا کہ اب تک تو تمہیں حروف کی پیچان کو چکی ہوگی۔ تم پڑھو، غلطی ہوئی تو میں بتا دوں گا۔ اس نے کہا کہ وہ نہیں پڑھ سکتا۔ میں کے کہا یہ کیسے ممکن ہے تم کوشش کرو۔ مگر اس سے ایک لفظ بھی پڑھا نہ گیا۔ مجھے حیرت ہوئی۔ جب زیادہ کرید کی تو معلوم ہوا کہ اس بچے کو ناظرہ پڑھے بغیر ہی حفظ کی کلاس میں بٹھا دیا گیا تھا۔ اور اس نے جو حٖفظ کیا تھا وہ محض آوازوں کو یاد کر کے کیا تھا اسے کسی حرف کی پیچان نہ تھی۔
جب مفتی صاحب کو اطلاع دی تو فرمایا کہ کوئی بات نہیں۔ یہ بھی قرآن کی برکت ہے کہ وہ بنا پڑھے یاد کر پایا۔
...............................................................................................................................................................
مفتی نامہ 2
ایک مسجد دو مولوی 
ہمارے مفتی صاحب اور ان کے بڑے بھائی کا مسجد کی تولیت پر جھگڑا ہوگیا۔ مسجد ان کے والد صاحب نے ایک پلاٹ پر قبضہ کر کے بنائی تھی۔ دونوں بھائی مولوی تھے اور دونوں پٹھان بھی تھے۔ یعنی نور علی نور۔ اس مسجد کے کرتا دھرتا اس وقت ہمارے مفتی صاحب تھے۔ جب تک بڑا بھای مسجد کا خطیب رہا، مسجد معمول کے طور پر 'چلتی' رہی اور معول کے مطابق 'آمدنی' (ہمارے مفتی صاحب آمدنی ہی کہتے تھے) آتی تھی۔ لیکن جب ہمارے شعلہ بیان مفتی صاحب نے مسجد سنبھالی تو مسجد کی آمدنی میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہونے لگی۔ بڑے بھائی نےپہلے تو گاڑیوں کے لین دین کا کاروبار شروع کیا۔ لیکن جب اس میں کامیاب نہ ہوسکا تو مسجد کی تولیت کا جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر بندوقین تان لیں۔ 
تاہم، ہمارے مفتی صاحب زیادہ سمجھدار تھے۔ انھوں نے اس کا حل نکالا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ فلاں بلاک میں مسجد نہیں ہے۔ وہاں کے نمازیوں کی نمازیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اہلِ خیر وہاں مسجد کے لیے پلاٹ کا انتظام کریں ۔ وہ علاقہ بھی پوش ایریا تھا۔ ایک صاحبِ خیر نے لبیک کہتے ہوئے اپنا پلاٹ پیش کردیا۔ پلاٹ پر ' مسجد کی تعمیر میں حصہ ڈالیے اور جنت میں اپنا محل بنوائیے' کا بورڈ لگا دیا گیا۔ چند دنوں میں مسجد تعمیر ہوگئی۔ پھر مزید 'آمدنی' کے لیے اس میں مدرسہ بھی بنا دیا گیا۔ اور یوں دونوں بھائیوں نے خدا کے دین کی خدمت کے لیے ایک کی بجائے دو مراکز بنا کر 'ثوابِ دارین' حاصل کرنے کا مستقل انتظام کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی نامہ 3
قرآن اور حافظِ قرآن 
ہمارے مدرسے کا ایک ساتھی جو حافظ تھا اور نہایت خوش الحان تھا، قرآن پاک کا زیادہ احترام نہیں کرتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے دل کی بات کہی کہ ہم حفاظ کو قرآن سے وحشت ہوتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو اس کے حفظ کے لیے ہمیں زدوکوب کیا جاتا ہے، ذلیل کیا جاتا ہے، گھروں سے دور رکھا جاتا ہے، استاد کی ہر جائز اور ناجائز ماننی پڑتی ہے بلکہ بہت ناجائز والی بھی ماننی پڑ جاتی ہے۔ بچپنے کی عمر میں جس چیز کی وجہ سے اتنا کچھ سہنا پڑے اس سے محبت و عقیدت کیسے ہو سکتی ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی نامہ 4
مفتی صاحب، مدرسہ البنات اور خفیہ نکاح
ایک دفعہ ہمارے مفتی صاحب نے مدرسۃ البنات کے قیام اعلان فرما دیا۔ لوگ شوق اور عقیدت میں اپنی بچیوں کو مفتی صاحب کی خدمت میں علمِ دین حاصل کرنے کے لیے بھیجنے لگے۔ کچھ دن بعد مفتی صاحب پر 'تقوی' نے غلبہ پا لیا۔ ان میں ایک نو بالغ بچی سے فرمایا کہ مرد کا عورت کو پردے میں بھی پڑھانا مناسب نہیں۔ شیطان کے پاس ہزاروں ہتھکنڈے ہیں گمراہ کرنے کے۔ وہ ہم سے فرمایا کرتے تھے کہ کسی شص نے اپنی بہن کو ایک عالم اور ولی کے پاس چھوڑا اور خود اللہ کے دین کی خدمت میں کہیں چلا گیا۔ شیطان نے اس عالم، صوفی کو اس طرح بہکایا کہ لڑکی کو دین کا علم ہی پڑھا دو۔ اس نے پردے میں پڑھانا شروع کیا اور دھیرے دھیرے بات یہاں تک پہنچی کہ دونوں میں ناجائز تعلق قائم ہوگیا۔ تعلق کے افشاء کے ڈر سے عالم صاحب نے لڑکی کو قتل کر دیا۔ لیکن پکڑا گیا۔ سزائے موت کا اعلان ہو گیا۔ شیطان نے اس سے کہا کہ اگر بچنا ہے تو مجھے خدا مان لو۔ اس نے مان لیا۔ اِدھر اس نے مانا ادھر اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ اور وہ بے ایمان دنیا سے گیا۔
مفتی صاحب نہیں چاہتے تھے کہ دنیا سے بے ایمان ہو کر جائیں۔ انہوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ نوبالغ کم سن بچی کو اپنے ساتھ غیر علانیہ نکاح پڑھوانے پر آمادہ کر یا کہ اس طرح پردے کا مسئلہ حل بهی ہو جائے گا اور علم دین کی تعلیم بهی بلا حرج و حجاب جاری رہے گی. مزید احتیاط کے لیے لڑکی کے کم عمر بھائی، جو کہ ان کا شاگرد تھا، کو شرعی مسائل اور تقوی کی مجبوری سنا کر اس نکاح پر آمادہ کر لیا۔
تحصیلِ علم میں اب کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ معاملہ کچھ عرصہ یوں چلتا رہا کہ پھر نجانے کیسے لڑکی کے گھر والوں کو پتا چل گیا۔ لڑکی کا باپ مفتی صاحب کے پاس آیا اور جھگڑا کیا۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ یہ سب مجھے اپنا دامنِ تقوی بچانے کے لیے کرنا پڑا اور لڑکی کو بھی گناہ سے بچا لیا اور اس کے ساتھ دین کا علم بھی لڑکی کو دیا۔اب بجائے ممنون ہونے کے تم الٹا مجھ پر چڑھائی کر رہے ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو لے جاؤ اپنی بیٹی کو، میں تمہاری بیٹی کو طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی نامہ 5
مفتی نامہ 5
مفتی بمقابلہ مفتیان
ہم تو خوش تھے کہ جو کبھی نہ ہوا وہ ہوا چاہتا ہے پر خدا کے کاموں میں کس کو دخل ہے۔ ایک بار تو ہم سمجھے کہ گنگا الٹی بہنے کو ہے، سورج مغرب سے طلوع ہونے والا ہے، ہتھیلی پہ سرسوں جمائی جا سکتی ہے، شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پینے والے ہیں، بلی اور چوہے کی دوستی ممکن ہے، تارے توڑ لائے جا سکتے ہیں، زمین و آسمان کے قلابے مالائے جا سکتے ہیں، دھوپ اور چھاو کی تفریق ختم کی جا سکتی ہے  مگر۔۔۔۔۔۔ کیا کیا جائے کچھ دمیں ٹیڑھی رہنے کے لیے ہی بنی ہیں، بعض کوے سفید ہی رہیں گے، کچھ مرغوں کی ٹانگ ایک ہی ہو گی اور ڈھاک کے تین ہی پات رہیں گے۔  یہ قصہ ہے چند مفتیان کے مل بیٹھنے کا۔ گو جس قدر بھی محال معلوم ہو یہ کاردشوار ہوا ہی چاہتا تھا۔ مگر قانون فطرت نے خود کو اٹل ثابت کر دکھایا کہ ہر مولوی دوسرے مولوی کو مساوی مگر متضاد قوت سے دھکیلتا ہے، اور اس قوت دفع کاانحصار دو مولویوں کے مابین مسلکی و فقہی اختلاف کی شدت کے براہ راست متناسب ہے۔  
1996-97 کے لگ بھگ کا قصہ ہے کہ پنڈی اسلام آباد کے مفتیان کرام نے مل کر مجلسِ فقہ یا فقہ اکیڈمی کے قیام کا ارادہ کیا۔ جس کا مقصد مشترکہ اور متفقہ فتاویٰ کی اشاعت تھی۔ اس کی تحریک مولانا عبد العزیز (لال مسجد والے) کی طرف سے آئی تھی۔ ہمارے مفتی صاحب نے اس کی تکمیل کا بیڑا اٹھا لیا۔ رابطے اور انتظامات میرے سپرد کیے گئے۔ میں نے سب سے مل کر مفتی صاحب کا پیغام دیا اور اجلاس کا وقت طے کرایا۔ مفتی صاحب کی مسجد میں اجلاس ہوا۔ فقہ اکیڈمی کا قیام عمل میں آ گیا۔ لائحہ عمل طے کیا گیا کہ اہم فتاویٰ ایک دوسرے کو ارسال کر کے ایک دوسرے سے تصویب اور تصدیق کرائی جایا کرے گی۔ فقہ اکیڈمی کے سربراہ ہمارے مفتی صاحب قرار پائے۔ اور دیگر عہدے بھی قائم کر دیئے گئے۔ ہم بہت خوش تھے کہ مولوی لوگ بھی مل کر کام کریں گے۔ اور ہمارے مفتی صاحب کو اس ایوان کے قائد ہونے کا اعزاز ملا۔ لیکن مفتی صاحب نے بتایا کہ انہیں یہ پیشکش ان کے علمی مقام کی وجہ سے نہیں دی گئی۔ اس لیے دی گئی ہے جو صدر بنے گا، اسی کے ذمے اجلاس بلانا اور خرچہ کرنا ہوگا تو انہوں نے مجھ پر ڈال کر اپنی جان چھڑائی ہے۔ ہم بات کو اس پہلو سے دیکھنے کے ابل نہیں تھے۔
ابھی ایک مشرکہ فتوی بھی شائع نہ ہوا تھا کہ ایک مفتی صاحب جو پہلے اجلاس میں شرکت نہیں کر پائے تھے، اس بات پر ناراض ہو گئے کہ ان کو کوئی عہدہ نہیں دیا گیا۔ ان کو منانے کی واجبی سی کوشش کی گئی اور پھر ہمارے مفتی صاحب نے ان کو اپنی مادری زبان میں وہ بے نقط سنائی کہ انہیں آج بھی یاد ہوں گی۔
اس کے بعد والا قصہ زیادہ دلچسپ ہے۔ ایک دن یوں ہوا کہ مفتیانِ کرام کا اجلاس طے تھا۔ اجلاس سے ایک دن پہلے ایک مفتی صاحب ہمارے پاس آئے اور مجھے ایک فتوی دیا کہ یہ انہوں نے لکھا ہے اور یہ کہ دیگر مفتیان سے اس پر ان کی رائے لکھوا لوں۔ اور انہوں نے اجلاس میں آنے سے معذرت کر لی۔ اگلے دن وہ فتوی میں نے پنڈی کے دو مفتیان کو پیش کیا۔ انہوں نے پڑھا اور کہا کہ فتوی غلط ہے۔ پھر انہوں نے اس پر اپنی رائے لکھی کہ سوال گندم اور جواب چنا۔ درست یوں اور یوں ہونا چاہیے۔ فلاں فلاں کتب سے مراجعت کیجئے۔
اگلے دن فتوی دینےوالے مفتی صاحب آئے تو میں نے شرمندگی سے ان کا فتوی ان کے حوالے کیا۔ فتوی پر لکھی عبارات پڑھ کر وہ ہنسے اور مجھے کہا کہ یہ فتوی میرا نہیں تھا۔ یہ تو مفتی محمود دیو بندی کا فتوی تھا جو کچھ مختلف نوعیت کا تھا۔ میں نے اسے نقل کر کے نیچے اپنا نام لکھ دیا کہ دیکھوں یہ 'جید' مفتیان کیا فرماتے ہیں۔ اب اگر کبھی یہ میرے خلاف بولے تو میں ان کی علمیت کا پردہ چاک کردوں گا کہ انہوں نے مفتی محمود دیوبندی کے فتوی کو غلط قرار دیا ہے۔ یہ سن کر میں نے دل ہی دل ان کی 'ذہانت' کی داد دی۔ اگلےدن جب اپنی رائے  لکھنے والے دونوں مفتیان سے ملا تو دونوں نے بڑی بےتابی سے پوچھا کہ کیا وہ فتوی ابھی میرے پاس ہے یا میں نے مذکورہ مفتی صاحب کو دے دیا۔ میں نے بتایا کہ دے دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ فتوی درست تھا۔ بس رائے لکھنے میں جلدی کر دی۔
مولانا عبد العزیز جنہوں نے اس فقہی تنظیم کا خیال پیش کیا تھا، مفتیان نے انہیں اس مجلس سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ وہ مولانا ہیں مفتی نہیں۔ پہلے وہ ان کی طرح مفتی بنیں پھر ان کی طرح فتوے دیں۔
مفتیان حضرات کی ان حرکتوں کی وجہ سے کسی ایک بھی مشرکہ فتوی کے اجراء سے پہلے ہی فقہ اکیڈمی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔
خدا کرے ملی وحدت کا خواب بھی جلد پورا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی نامہ 6
سارا دین داڑھی میں ہے
ہمارے ممدوح مفتی صاحب حقیقتا ساری دین داری داڑھی میں مانتے تهے. داڑھی مشت بهر سے جتی کم ہوتی اتنا آدمی ساقط الاعتبار ہوتا جاتا. ایک دفعہ میں نے علامہ اقبال کا نہایت ایمان افروز شعر سنایا. مفتی صاحب جهوم گئے. پھر فورا سنبهل کر گویا ہوئے کہ ہاں راتوں کو قرآن پڑھتے ہوئے روتا تها اور صبح اٹھ کر داڑھی مونڈ دیتا تها یہ کیسی دین کی محبت؟
ایک بار فجر کی نماز کے بعد ایک کلین شیو شخص نے مفتی صاحب کو بٹھا لیا اور شدت عقیدت سے روتے ہوئے بتایا کہ اسے خواب میں روضہ رسول کی زیارت ہوئی ہے. مفتی صاحب نے مبارکباد دی. ہم سب اس کی خوش قسمتی پر رشک کرنے لگے. جب وہ چلا گیا تو ارشاد فرمایا کہ وہ جهوٹ بول رہا تها. بهلا ایک داڑھی منے کو یہ سعادت کیسے حاصل ہوسکتی ہے جب کہ ہمیں نہیں ہوتی حالانکہ ہم نے داڑھی بهی رکھی ہوئی ہے.
صرف ایک کلین شیو تھا جسے وہ نہ صرف پسند کرتے بلکہ اللہ کا ولی مانتے تھے۔ اور وہ خوش نصیب تھا جنرل ضیاء الحق!
وجہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی نامہ 7
مفتی صاحب اور حلالہ
حلالہ اور مفتی صاحبایک دن ایک آدمی مفتی صاحب کے پاس حلالہ کروانے آیا. میرا مطلب ہے حلالہ کا مسئلہ حل کروانے آیا. مفتی صاحب نے بڑے ضبط سے کام لیتے ہوئے خود کرائے کا سانڈ بننے کی بجائے یہ موقع مدرسے کے ایک 14 سال کے لڑکے کو دیا. اس شخص نے اس لڑکے کو پک اینڈ ڈروپ بهی مہیا کی. لڑکا جب واپس آیا تو مفتی صاحب نے الگ بٹها کر اس سے رپورٹ طلب کی. میں دور بیٹھا ان دونوں کے ہاتھوں کے اشاروں سے ساری کہانی متصور کرتا رہا.
مجهے اعتراض تها کہ ایک کمسن لڑکے کو نہیں بهیجنا چاہئے تها. اس پر مفتی صاحب نے اس کام کے لئے ایک نوبالغ کو بهیجے جانے کی ایسی حکمتیں بیان کیں کہ میں
ششدر رہ گیا. فرمایا کہ 14 سال کر لڑکا جنسی فعل کے سر انجام دینے کے قابل ہوتا ہے جو حلالہ کے لیے ضروری ہے کہ فعل پورا ہو، لیکن اس کے مادے میں اتنی صلاحیت ابھی پیدا نہیں ہوئی ہوتی ہے کہ باپ بن سکے۔ نیز کم سن ہونے کی وجہ اسے دبا کر آسانی سے طلاق دلوائی جا سکتی ہے۔
مفتی صاحب نے یہ بهی فرمایا کہ خیر لڑکا ناتجربہ کار تها. خاتون نے اسے بہت نفرت سے اپنے پاس آنے دیا تھا۔ فرمای کہ میں ہوتا تو خاتون کو راضی کرنے کے لیے اسے بتاتا کہ اس فعل کا سر انجام دیا جاتا ضروری ہے۔ نیز اسے وہ احادیث سناتا جو شوہر کی فرمانبرداری کی تلقین کرتی ہیں اور چونکہ میں اس کا شوہر ہوتا اس لمحے، اس لیے اسے اپنی  مرضی کے مطابق راضی لر لیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی نامہ 8
مفتی صاحب اور موسیقی 
موسیقی کے خلاف جہاد میں انہوں نے عظیم قربانیاں دیں تھیں۔ مفتی صاحب موسیقی کو مطلقًا حرام سمجھتے تھے اور ہمیں بھی یہی باور کرواتے۔ محلّے میں کسی جگہ اونچی آواز میں میوزک لگا ہوتا تو شاگرد بھیج کر بند کروا دیتے۔ شادیوں کے موقع پر جب لوگ بینڈ باجے بجاتے تو وہ اپنے مدرسے کے لڑکوں کو ڈنڈے دے کے لڑنے بھیج دیتے۔ ایسےا یک چند معرکوں میں، میں نے اور میرے چند دوستوں ، (جو فیس بک استعمال کرنے کے لیے زندہ بچ گئے ہیں)نے بھی دادِ شجاعت دی۔ پھر بھی اگر کوئی بینڈ باجا بند نہ کرتا تو مسجد کا لاؤڈ سپیکر کھول کر یا جمعہ کے خطبے میں اس کا نام لے کر اس کی عزت کا جنازہ نکال دیتے۔
ایک بار تو باقاعدہ جنگی صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی۔ انھوں نے شادی والے گھر پر اپنے مدرسے کی فوج سے حملہ کرا دیا۔ قیادت اپنے ہاتھ میں رکھی۔ اپنے دستِ مبارک سے دشمن کے لاوڈ سپیکر ٹھکانے لگا دیئے۔ ان کا کافی مالی نقصان کیا۔ تاہم، دوسری پارٹی بھی تگڑی تھی۔ انھوں نے بھی خوب مارا۔ معرکہ حق و باطل جب اختتام پذیر ہوا تو مفتی صاحب اپنے لشکر کو لے کر مدرسے واپس آ گئے، خبر ملی کہ دوسری پارٹی کا بھی ارادہ تھا کہ اب وہ مدرسے پر حملہ کریں گے۔ مدرسے میں ریڈ الرٹ کر کے مفتی صاحب سو گئے۔ خواب میں ان کو بتایا گیا کہ اگر اس پارٹی نے حملہ کیا تو فرشتوں کے پرّے ان کی مدد کے لئے تیار کھڑے ہیں۔ مسجد اور مدرسے کو فرشتوں لے لشکر نے اپنی حفاظت میں لیا ہوا ہے۔ حملہ ہوا تو وہ دشمن کو تباہ کر کے رکھ دیں گے کہ آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بن جائیں۔مگر اس پارٹی کو حملے کا حوصلہ نہ ہوا۔ شاید فرشتوں نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا ہوگا۔ افسوس ،میں اس معرکہ میں شامل نہیں تھا۔ یہ واقعہ مجھے مفتی صاحب کے شاگردوں اور خود مفتی صاحب نے سنایا۔اور اپنا خواب تو وقتًا فوقتًا ہمارا ایمان تازہ کرنے کے لیے سناتے ہی رہتے تھے ۔
موسیقی کے بارے میں جو بھی کتب آتیں، فورًا خریدواتے۔ مفتی شفیع صاحب کی کتاب اسلام اور موسیقی طبع ہو کر آئی تو منگوائی اور ہمیں پڑھنے کو دی۔ جب ہم نے اس میں دلائلِ حلّت اور دلائلِ حرمت پڑھے اور پھر جب نتیجہء بحث پڑھا تو خود کسی نتیجے پر نہ پہنچ پائے۔ مفتی صاحب کے پاس آکر بتایا کہ آپ تو موسیقی کو مطلقًا حرام کہتے ہیں جب کہ یہاں تو یہ لکھا ہے کہ حلال بھی ہے اور حرام بھی۔ یہ سن کر انھوں نے مجھ سے فورًا کتاب لے کر اپنی تحویل میں کر لی اور فرمایا کہ زیادہ علم بھی فتنہ ہے۔ یہ آدمی کو تذبذب کا شکار کر دیتا ہے۔ لوگوں کو ایسی کتابیں نہیں پڑھنے دینا چاہیے۔ لوگوں کو ہمارے پاس آنے دو ہم بتائیں گے کہ موسیقی مطلقًا حرام ہے۔ اسی طرح ان کا ایمان بچے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی نامہ 9
مفتی صاحب اور قربانی کے بکرے
ہمارے مدرسے میں جو صدقے کے بکرے آتے تھے، ان کے بارے میں مفتی صاحب کی ہدایت تھی کہ ان کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کیا کرو، تاکہ کل کفار کو ذنح کرتے ہوئے ہاتھ نہ کانپیں۔ چنانچہ ان کے حکم پر بندے نے کئی بکرے اسی نیت سے ذبح کیے کہ بکرا نہیں کسی کافر کو ذبح کر رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مفتی نامہ 10
مفتی صاحب اور صدقے کے پیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی صاحب میں تقوی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ صدقے اور زکوۃ کے پیسوں کو مسجد پر لگانا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ کیوںکہ فقہ کی رو سے صدقہ اور زکوۃ کے لیے ضروری ہے کہ کسی کو ان کا مالک بنایا جائے اور مسجد مالک نہیں بن سکتی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مفتی صاحب مسجد کے کھاتے سے بطورِ خطیب اپنا خرچہ لیتے تھے۔ شریعت نے حق مہر کی طرح خطیب کے خرچ کی بھی کوئی شرعی حد مقرر نہیں کی ہے اس لیے مفتی صاحب نے بھی شریعت کے خلاف جانا ضروری نہ سمجھا۔ لیکن ہوتا یہ تھا کہ زیادہ 'آمدنی' مدرسے کے کھاتے میں آتی تھی اور مسجد کے چندے سے تو بس بلز ہی پورے ہوتے تھے۔ اس کے لیے مفتی صاحب ہر کچھ مدت بعد، مدرسہ کے ایک سادہ لوح، نوبالغ بچے کو پانچ چھ بڑے، بااعتماد افراد کے درمیان بٹھا کر حیلہء تملیک فرماتے۔ یعنی کہ ہزاروں روپے اس بچے کو دے کر کہتے کہ یہ تمہارے ہیں، چاہو تو سارے لے جاؤ۔ اور اگر چاہو تو اللہ کے راستے مٰیں اس مسجد کو دے دو اللہ تمھیں ثواب دے گا۔ اتنے سارے لوگوں کی موجودگی میں وہ اور کیا کرتا۔ وہ دبی دبی سی مسکراہٹ کے ساتھ۔، ایک طرف سےہزاروں روپے اٹھاتا اور دوسری طرف مسجد کے کھاتے میں ڈال دیتا۔ اس طرح صدقے اور زکوۃ کے پیسے اپنے مالک کو پا بھی لیتے اور اللہ کے راستے میں مزید استعمال ہو کر موجبِ اجر و ثواب بھی بنتے۔
لیکن ایک یہ بات عجیب تھی اس بچے میں کہ اپنی معمولی سی ٹوپی اور رومال تک وہ کسی دوسرے کو استعمال کے لیے نہیں دیتا تھا۔ ہزاروں روپے ایک لمحمے میں صدقہ کرنے والے کو یہ حرکتیں زیب نہیں دیتیں
بس ایک بات کا گلہ تھا ، کہ اتنی فیاضی سے چندہ دینے والے اس بچے کی اتنی عزت نہیں کی جاتی تھی جتنی اس سے بہت کم چندہ دینے والے چند نمازیوں کی خصوصی طور پر کی جاتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی نامہ 11
مفتی صاحب اور حج

ایک کاروباری دولت مند شخصیت ہوا کرتی تھی۔ وہ ان کا شوق تھا  کہ ہر سال یا وہ خود حج کرتے یا کسی ایسے کو بھیجتے جو حج کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔وہ نہ صرف یہ کہ حج پر بھیجتے بلکہ زبردستی بھی بھیجتے تھے۔ یعنی جس کو سپونسر کر دیں اس کے سر ہو جاتے کہ جانا تو پڑے گا۔ خیر ایسا کم ہی ہوتا کہ کوئی جانے سے انکار کرتا۔ مگر ایک مردِ حق تھا جس نے انکار کیا تھا اور پھر اسے زبردستی جانا پڑا۔ وہ  مردِ مومن ، مردِ حق، ہمارے ممدوح جناب مفتی صاحب تھے ۔ مذکورہ شخص نے مفتی صاحب کو بنا اطلاع دیے حج کے لیے سپونسر شپ بھیج دی۔ مفتی صاحب کو معلوم نہ ہوا کہ کس نے بھیجی۔  انہوں نے  اس کو کیش کروا  کر پیسے رکھ لیے۔ چند دن بعد وہ شخص آیا اور پوچھا کہ کیا  حج کی سپونسر شپ وصول ہوئی؟ جب اسے معلوم ہوا کہ وہ تو کیش کروا لی گئ ہے تو بہت برا منایا۔مفتی صاحب نے کہا کہ وہ اکیلے  نہیں بلکہ اپنی بیگم کے ساتھ حج پر جانا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ صاحب سر ہوگئے کہ جب میں نے سپونسر کر دیا ہے تو حج پر جانا ہوگا۔ مفتی صاحب نے بادلِ نخواستہ پیسے واپس جمع کروا کر سپونسرشپ واپس لی اور حج پر تشریف لے گئے۔
 ۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی نامہ 12
نوجوان مولوی اور خواتین کا درس
........................................
ایک دفعہ مفتی صاحب نے خواتین کے لئے ہفتہ وار درس کا انتظام کرایا۔ یہ درس علاقے کے مختلف گھروں میں کیا منعقد کیا جاتا تھا۔ مفتی صاحب کی شعلہ بیانی سے کافی تعداد خواتین کی آتی اور مستفید ہوتی۔ کچھ دروس ہو گئے تو مفتی صاحب نے یہ سوچا کہ شہر کے دیگر مولوی صاحبان کو بھی درس دینے کے لیے مدعو کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک نوجوان ، نو فاضل مولوی صاحب کو دعوت دی گئی۔ وہ دوڑے چلے آئے۔ موقع نیکی کا تو تھا ہی اس پر درس بھی خواتین کا، اور یہ مولوی صاحب بھی امت کی اِن بھیڑوں کی تربیت میں خاص الخاص دلچسپی رکھتے تھے۔اس میں اگر ان کی کچھ شہرت بھی ہو جاتو ضمنی فائدہ اٹھانے میں کیا حرج تھا۔
خطاب الگ کمرے میں مائیک کے ذریعے کیا تھا۔ ہم بھی اس کمرے میں موجود ہوتے تھے۔ نوجوان مولوی صاحب نے درس شروع کیا۔ ان کی تقریر ایسی طوفانی تھی اور طبیعت میں ایسی جولانی تھی کہ درودیوار بھی ہم نوا ہو رہے تھے۔ مولوی صاحب کی تقریر شروع تو پند و نصائح سے ہوئی تھی لیکن پھر جو اس نے 'خواتین کی مسائل اور ان کا حل ' کا رخ اختیار کیا اور اردو کمزور ہونے کی وجہ سے جو 'صاف بیانی ' سے کام لیا گیا تو ہمارے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے، کانوں کی لوئیں سرخ ہو گئیں اور جسم پسینے سے شرابور ہو گئے۔ ہمیں ڈر لگ رہا تھا کہ خواتین کہیں واک آؤٹ ہی نہ کر جائیں۔ واک آؤٹ تو پھر بھی ٹھیک ہوتا، ڈر تو یہ بھی تھا کہ کہیں واک اِن نہ کر آئیں اورعزت بچانی مشکل ہو جائے۔ خیر واپس آ کر ہم نے اپنے مفتی صاحب کورپورٹ دی کہ منٹو کے افسانوں کی طرح ،اس طرح کے دروس پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ لیکن پھر یہ جان کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی وہ درس خواتین میں نہایت مقبول ہوا تھا۔ ہر گھر میں اس کے چرچے ہورہے تھے، اور پھر ڈیمانڈ آئی کہ ان مولوی صاحب کو درس کے لیے دوبارہ بلوایا جائے!
مفتی نامہ 13
کتابی چکر 
.............
مفتی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کتاب جتنی پرانی ہو اس میں برکت اتنی زیادہ ہوتی ہے. یعنی علم میں موجودہ بے برکتی کا کریڈٹ پرنٹنگ پریس کو جاتا ہے. انہوں نے ہمیں عربی کی شرح مائتہ عامل کا ایک قدیم نسخہ برائے مطالعہ دیا. ایک تو اس کتاب کے صفحات زرد پڑ چکے تهے، دوسرے یہ کہ متن کے علاوہ اس پر یکے بعد دیگرے دو حواشی بھی تهے. یعنی ایک حاشیہ تو کتاب کے متن کی شرح کرتا تھا تو دوسرا اس شرح کی شرح. اس پرمستزاد یہ کہ حواشی آڑے ترچھے ایک ڈیزائن کی صورت میں بڑی مہارت سے نہایت باریکی سے لکھے گئے تهے. ایک سطر ایک کونے سے آتی اور درمیان میں پہنچ کر گویا منعکس ہو کر دوسرے کونے تک چلی جاتی جب کہ دوسری سطر اس کے مقابل والے کونے سے آتی اور درمیان میں آکر اسی طرح منحرف ہو کر دوسرے کونے تک چلی جاتی. شروع میں تو پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ عبارت نے کب کس طرف کو ٹرن لے لیا. سرا ہاتھ آتا تو دم غائب ہو جاتی اور دم ملتی تو سرے کی تلاش نئے سرے سے کرنی پڑتی. لیکن برکت کے چکر میں ہم یہ گهمن چکر سہتے رہے.
یہ زگ زیگ عبارت پڑھنے کے لئے ہمیں کتاب کو بار بار گھمانا پڑتا تھا. اس پر مفتی صاحب نے ہمیں تنبیہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کتاب کو گهمانا بے ادبی ہے. آپ کو چاہیے خود گھوم گھوم کر عبارت پڑهیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی نامہ 14
ہمارے ممدوح مفتی صاحب کی جب تک شادی نہیں ہوئی ، انہیں جہاد کا بہت شوق رہا۔ ایک مرتبہ  اپنے استادِ محترم کو خط لکھا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ  ایک مخالف فرقے (جو ان کے نزدیک کافر تھا) کے مجمع میں جاکر خود کش دھماکا کر کے انہیں جھنم واصل کر کے خود حوروں سے وصال فرما ل لوں۔ لیکن استاد جی نے یہ کہہ کر منع  کر دیا  کہ آپ عالمِ دین بن چکے ہیں ،  آپ پر امت کی رہنمائی کا فریضہ عائد ہو چکا  ہے ، اس لیے آپ خود کو اس کام میں ضائع نہ کریں، اس کے لیے امت کے دیگر افراد جو  موجود ہیں ان کی جانیں ایسے نیک مقاصد کے لیے  استعمال  فرمایا کریں  ۔

جزاک اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مفتی نامہ 15:

قاری اور کاروکاری:

ہمارے ممدوح مفتی صاحب کے ایک عزیز از جان شاگرد تھے اور نہایت خوش الحان واقع ہوئے تھے۔ اذان دیتے تو ایسی کہ جس نے نہیں بھی پڑھنی ہوتی تھی وہ بھی نماز پڑھنے مسجد کی طرف کھنچا چلا آتا۔ تلاوت کرتے تو دل نہ چاہتا کہ ختم ہو۔ لگتا تھا مستقبل میں مفتی صاحب کی گدی وہی سنبھالنے والے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ایک فعل بد میں مبتلا تھے۔ مدرسے جب بھی کوئی نیا بچہ آتا اور مفتی صاحب ہمیں ان صاحب کی خصوصی نگرانی کی تاکید کرتے تھے۔ کئی بار پکڑے گئے ، مار پڑی ، بے عزتی ہوئی۔ لیکن پکڑے بھی تب گئے جب متاثرہ بچے کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا۔ ورنہ معلوم نہ ہوتا کہ کب کیا ہو گیا۔ ہم عرض کرتے کہ اس کو نکال کیوں نہیں دیتے۔ اس پر مفتی صاحب اپنی عدیم النظیر فراست اور ان معاملات مین مدرسے کی روایتی 'رواداری' کا اظہار فرماتےہوئے کہتے کہ جس کی برائیوں کا پتا ہو وہ بہتر ہے یا وہ انجان جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ جانے کیا کر جائے ۔ دوسری بات یہ کہ اس کی جگہ کوئی اور بھی اگر آیا تو کیا بھرو سہ وہ ٹھیک ہو گا، آخر وہ بھی تو کسی نہ کسی مدرسے سے آیا ہو گا۔ پھر اگر اس کو نکال دیں تو یہ کسی اور مدرسے میں چلا جائے گا اور وہاں بھی یہی کچھ کرے گا، یہاں ہمیں معلوم تو ہو جاتا ہے کسی نہ کسی طرح، وہاں تو شاید کسی کے علم میں آئے بغیر اس کا کام چلتا ہی چلا جائے گا۔
مفتی صاحب کی ان فرمو دات کے بعد ہماری کیا مجال تھی کہ کوئی بات کرتے۔ سلسلہ چلتا رہا س اور موصوف نے دستارِ فضیلت اپنے سر پر سجا لی ۔ سنا ہے اب ان کا اپنا مدرسہ ہے۔Top of Form

مفتی نامہ 16
مفتی صاحب عوام کی نفسیات کے بڑے ماہر تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ مولویوں کو عوام کی جیب سے پیسہ نکلوانا نہیں آتا۔ میں بغیر مانگے نکلوا سکتا ہوں۔ پھر وہ ثابت بھی کرکے دکھاتے۔ ایک بار مسجد کی زیب و زینت کا شوق چرایا۔ ٹائیلیں لگوانے کا ارادہ کیا۔ مستری سے محراب اور سامنے کی دیوار کا پلستر اکھڑوا دیا۔ پھر کام رکوا دیا۔ لوگ نماز پڑھنے آتے تو انہیں صفائی کی شکایت ہوتی۔ سامنے دیوار بدنما لگتی۔ آخر لوگ مفتی صاحب سے پوچھنے لگے کہ کام کیوں روک دیا گیا۔ مفتی صاحب فرماتے کہ جو پیسے تھے لگوا دیے۔ اب اللہ دے گا تو کام کروا دیں گے۔ جب کہ مستری کو کوئی پیسے ادا نہیں کیے گئے تھے۔ 
لوگ یہ سن کر جلدی جلدی پیسے لانے لگے اور کام پایا تکمیل کو پہنچ گیا۔ بعد میں وہ مستری ملا تو معلوم ہوا کہ اس بیچارے کو مکمل مزدوری دیئے بنا ہی چلتا کر دیا گیا تھا۔

مفتی نام 17
جھوٹ سے دین کی حفاظت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی صاحب کہا کرتے تھے مولوی دین کی ڈھال ہے جو ہر حملہ، ہر طعنہ اپنی ذات پر جھیل لیتا ہے لیکن دین پر آنچ نہیں آنے دیتا۔ چنانچہ مفتی صاحب اپنے اوپر ہونے والی ہر تنقید کو دین پر حملہ تصور کرتے اور اس کے خلاف جہاد کرنے اور فتوے کے اگلنے شروع ہو جاتے۔ اور ہم مفتی صاحب کے ہراول دستہ بن کر دین کی حفاظت کے غرے میں ان کی حفاظت مین جان جوکھوں میں ڈال دیا کرتے تھے۔
مفتی صاحب کہا کرتے تھے کہ اسلام سے بھی پہلے مولوی کا دفاع کرو۔ مولوی کی دیوار گری دین مفتوح ہو جائے گا۔ چنانچہ مفتی صاحب کا سارا زور اور ہمارا بھی سارا زور اسلام سے زیادہ بلکہ اسلام کی بجائے مولوی کی تر دامنی کو خشک کرنے میں لگا رہتا۔
ایک بار یوں ہوا کہ مفتی صاحب کو گواہی دینے عدالت بلایا گیا۔ عدالت میں حلف اٹھانے کے بعد پوچھا گیا کہ آپ کے ذرائع آمدن کیا ہیں۔ مفتی صاحب جو مدرسہ کے چندے پر خود کو اور بہت سے اپنوں کو پالتے تھے نے فرمایا کہ ان کا ذاتی کاروبار ہے۔
عدالت سے واپس آئے تو فرمایا کہ آج قسم اٹھا کرجھوٹ بولا ہے، دل پر بوجھ ہے۔ میں عرض کیا آپ دوبارہ جا کر بیان درست کر دیجئے۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ جتنی غلطی ہو توبہ بھی اتنی ہی کرنی چاہیے۔ مفتی صاحب کو اپنا بتایا ہوا یہ اصول اس وقت بہت ناگوار گزرا۔ فرمانے لگے نہیں، ایسا نہیں کر سکتا۔ 'دین' کے لیے جھوٹ بھی بولنا پڑتا ہے۔ سچ بتایا تو دین بدنام ہوگا۔ یہ فرمایا اور شام کے درس قرآن کی تیاری کرنے چلے گئے۔
..................................
مفتی نامہ 18
گدھے کی سواری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار میں نے مفتی صاحب سے پوچھا کہ آپ جو رسول اللہ ﷺ کی سنت عادیہ یعنی مخصوص حلیہ اختیار کرنا، مسواک کرنا، ہاتھ ناف پر باندھنا وغیرہ کو ہدایت اور گمراہی کا پیمانہ مانتے ہیں، آپ تہبند (دھوتی) کیوں نہیں باندھتے اور گدھے کی سواری کیوں نہیں کرتے کہ یہ بھی تو سنت ہے، فرمایا کہ زندگی میں کوئی ایک بار بھی تہبند باندھ لے اورایک بار بھی گدھے کی سواری کر لے تو سنت ادا ہو جائے گی۔ تو میں بھی ایک بار سنت کی نیت سے یہ کر لوں گا۔
میں نے عرض کیا کہ تو پھر کوئی ایک بار ٹوپی یا عمامہ باندھ لے تب بھی تو سنت ادا ہو جائے گی، تو اس پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں؟ حتی کے جو نہ پہنے اسے اپنا شاگرد اور متعلق تسلیم نہیں کرتے۔ اس پر وہ مجھے زیادہ سوال کرنے کے نقصانات بیان فرمانے لگے۔
بات اصل میں کیا ہے؟ مولوی صاحب نے جو چیزیں اپنی مولویت کی علامات اور پہچان بنا لی ہیں ان کے بارے میں وہ زیادہ حساس ہیں۔ اور لاشعوری یا شعوری طور پر وہ انہیں سنت کے نام پر ترویج دیتے چلے جاتے ہیں، یہ رویہ وہ ان دیگر سنن عادیہ کے لیے نہیں اپناتے جو ان کی پہچان نہیں بنیں۔
اسی طرح آج کے بعض صوفیاء نے مٹی کے برتین میں کھانا کھانا اپنا شعار اور امتیازی علامت بنا لیا اور اسے سنت کا نام پر اپنا رکھا ہے، لیکن سواری کے لیے انہیں گاڑی ہی چاہیے وہ گدھے پر سوار ہو نا پسند نہیں کریں گے۔
یہاں ایک اور مسئلہ بھی سمجھ لیں۔ مولوی صاحب کو لگتا ہے کہ ان کے اونچے پائنچے والی شلوار اور بعض افراد کی عجیب ہیئت کی لمبی داڑھی پر لوگ اگر ہنستے ہیں تو وہ سنت کا مذاق اڑاتے ہیں اس لیے کافر یا گناہ گار قرار پاتے ہیں۔ ان کے نکاح ٹوٹ جاتے ہیں۔ درحقیقت ایسا نہیں، بات یہ نئے کہ ہر ثقافت کے اپنی مخصوص عادات اور تصورات ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے کوئی چیز حقارت، یا تضحیک کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ مثلاً اہل مشرق کے ہاں الو حماقت کا استعارہ ہے، جب کہ اہل مغرب کے ہاں عقلدمندی کا۔ ہمارے ہاں اونچے پائنچے رکھنا لباس کا عیب ہے، بالکل ایسے ہی جیسے کوئی کوٹ پہن کر آستینیں چڑھا لے۔ بات پھر بھی سمجھ نہ آئے تو مولوی صاحب کو گدھے پر سوار کر کے دیکھ لیجیے کہ اس سنت پر عمل کرتے ہوئے ان کی کیا حالت ہوتی ہے۔ بس یہی حالت ایک عام آدمی کی پائنچے اونچے کرتے ہوئے ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سنت کی تحقیر نہیں، عرف و عادت اور کلچر کا مسئلہ ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے اپنی ثقافت کو دین کے لیے لازمی قرار نہٰن دیا۔ مگر مولوی نے عرب ثقافت کو بھی اسلام اور سنت کے نام پر لوگوں پر مسلط کر دیا۔ چنانچہ آج اگر کوئی جنید جمشید یا انضمام الحق دینداری اختیار کرنا چاہے تو اس کے لیے پہلی شرط مخصوص حلیے کا اختیار کرنا قرار دیا گیا ہے۔
یونیفارم کی یہ پابندیاں ہی ہیں جو بہت سے افراد کو دیندار ہونے سے روکتی ہیں۔ اور وہ پابندی سے دینی فرائض ادا کرنے کے باوجود مولوی صاحب سے دین داری کی سند نہیں پا سکتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مفتی نامہ 19 
مفتی، ٹی وی اور فیس بک
جمعے کا دن تھا۔ مفتی صاحب تقریر میں لوگوں پر برس رہے تھے۔ 
"لوگوں یہ ٹی وی جو تم نے گھروں میں رکھا ہوا ہے یہ شیطان ہے۔ ایک آنکھ والا دجال ہے۔ یہ حرام ہے۔ اس پر تو دینی پروگرام دیکھنا بھی حرام ہے۔ کیوں حرام ہے؟ اس لیے کہ ٹی وی میں آنے والا مولوی تمہاری عورتوں کے لیے نامحرم ہے۔ تمہاری عورتیں کا اس کو دیکھنا حرام ہے۔ 
دیکھو ہمارے نبی کے پاس عبداللہ بن ام مکتوم آئے وہ نابینا تھے۔ آپ نے اپنی بیویوں سے کہا کہ پردہ کرو۔ انہون نے عرض کیا کہ وہ صحابی تو نابینا ہیں۔ رسول اللہ نے فرمایا وہ نابینا ہیں تم تو نہیں۔ تو لوگو ٹی وی پر مولوی تو عورتوں کو نہیں دیکھ رہا ہوتا لیکن تمہاری عورتیں تو دیکھ رہی ہوتی ہیں اس لیے ٹی وی دیکھنا حرام ہے اور مولوی کا ٹی وی پر آنا بھی حرام ہے۔ اور یہ جو مولوی ٹی وی پر آتے ہیں یہ دو نمبر مولوی ہوتے ہیں۔ انہیں شرم نہین آتی اپنا دین بیچنے ٹی وی پر آ جاتے ہیں۔
اس کے بعد مفتی صاحب نے اعلان کیا کہ نماز کے بعد تمام غیرت مند مسلمان اپنے ٹی وی مسجد کے باہر میدان میں اکھٹا کریں ہم انہیں جلا کر اپنی غیرت ایمانی کا ثبوت دیں گے۔ "
نماز کے بعد مولوی صاحب کی تقریر کے متاثرین اپنے گھر والوں سے لڑ جھگڑ کر ٹی وی اٹھا لائے اور مسجد کے باہر انہیں آگ لگا۔
یہ آگ مفتی صاحب کی شہرت کی آگ بن کر پورے شہر میں پھیل
گئی۔
پی ٹی وی کی طرف سے مفتی صاحب کو ایک دینی پروگرام میں مدعو کیا گیا۔ مفتی صاحب نے ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرط پیش کی کہ پروگرام براہ راست نشر کیا جائے۔ ریکارڈنگ حرام ہے کیونکہ یہ تصویر بنانے اور محفوظ کرنے کا عمل ہے۔
پی ٹی وی والوں کو یہ شرط بھلا کیسے قبول ہو سکتی تھی۔ انہوں نے مفتی صاحب کے علم و فضل سے محروم رہنا گوارا کر لی۔
وقت گزرتا گیا۔
اور پھر گردش ایام نے وہ دن دیکھے کہ انہی مفتی صاحب کی ویڈیوز فیس بک پر باقاعدگی سے اپ لوڈ ہونے لگیں۔
پوچھا جو ان سے آپ کا فتوی وہ کیا ہوا کیا؟ کیا آپ کو ان ویڈیوز میں نامحرم خواتین نہیں دیکھیں گی؟ کیا ویڈیوز سے تبلیغ دو نمبری نہیں رہی؟ کیا ریکارڈنگ کرانا جائز ہوگیا؟ کیا آپ نے رجوع کر لیا؟ آپ فرمایا کرتے تھے کہ نا محرم کو دیکھنے والے اور نامحرم کو خود کو دکھانے والے اور والیوں پر لعنت کی گئی ہے تو آپ جیون اپنا آپ نامحرم عورتوں کو اپنی ویڈیو کے ذریعے دکھا رہے ہیں؟
اپنا ہی پڑھایا ہوا سبق ہمارے منہ سے سن کر جواب دیا۔ آپ سوال بہت کرتے ہیں۔ یہ آپ کے ایمان کی صحت کے لیے اچھا نہیں۔ علماء سے سوال نہیں کرتے، نہ ان پر تنقید کرتے ہیں۔



مفتی نامہ: 20
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ایک دن مفتی صاحب سے پوچھا، "آپ کو ایدھی اتنا برا کیوں لگتا ہے؟ وہ تو کسی کا برا نہیں چاہتا، کسی کو کچھ نہیں کہتا، بس انسانوں کی خدمت کرتا ہے، اپنا کچھ بھی نہیں بنایا؟ آپ اسے اتنا برا کیوں کہتے ہیں؟ اتنا غصہ تو کبھی مشرف پر نہیں آیا آپ کو جس نے ایک مسجد کی بے حرمتی کی، آپ کے "مجاہدین" کو بھون ڈالا؟ "جہاد" کرنے سے روکتا ہے۔ اس پر تو کبھی کفر کا فتوی بھی نہیں لگایا آپ نے اور اس درویش صفت ایدھی کو نجانے کیا کیا کہ دیتے ہیں آپ۔ ایسا کیوں؟"

بڑی صاف گوئی سے جواب دیا، " ایک فقیر کو دوسرا فقیر برا لگتا ہے۔ ظالم ہمارے چندے، صدقہ و خیرات لے جاتا ہے، اور تو اور قربانی کی کھالیں بھی نہیں چھوڑتا۔ اللہ اسے پوچھے۔"
......................................

مفتی نامہ 21
مفتی صاحب اور 'انشاءاللہ'
ہم کچھ دوست مفتی صاحب سے ملنے آئے۔ مفتی صاحب کو علم ہوا کہ ہمارا ایک دوست کمپیوٹر میں مہارت رکھتا ہے تو دین کی خدمت کے نام پر اسے اپنی کتب اور ویب سائٹ کی تیاری کے لیے اس کی خدمات مفت یعنی فی سبیل اللہ طلب کرنے لگے۔ ہمارا دوست بھی دینی جذبے سے سرشار ہوا کرتا تھا، فورا مان گیا اور کہا، "آپ فکر نہ کریں میں آپ کا کام کر دوں گا 'انشاءاللہ'۔"
اس پر مفتی صاحب کا ماتھا ٹھنکا اور فورا بولے۔ "بھئی آپ انشاءاللہ مت کہیں۔" 
دوست نے حیرت سے مفتی صاحب کو دیکھا اور پوچھا، "کیوں مفتی صاحب۔ انشاءاللہ تو کہنا چاہیے۔ اللہ کا حکم ہے۔"
مفتی صاحب جو مجسم فقہ تھے بولے، "فقہ کے مطابق وعدہ جب انشاءاللہ کی ساتھ کیا جاتا ہے تو وہ وعدہ نہیں رہتا۔ آپ چونکہ میرے ساتھ وعدہ کر رہے ہیں اس لیے انشاءاللہ نہ کہیں۔ "
ہمارے دوست نے عرض کیا کہ اس طرح ہم عوام کے نزدیک کام میں برکت نہیں ہوتی، بلکہ ہم جب یقین کے ساتھ کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں تو انشاءاللہ ضرور کہتے ہیں تاکہ خدا کی مدد بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جائے"۔
لیکن مفتی صاحب کو اس سے غرض نہیں تھی کہ عوام میں اس کا کیا مفہوم ہے۔ اور دوست کی نیت وعدے کی ہی ہے۔ انہیں فکر تھی کہ فقہی تقاضا پورا نہیں ہورہا۔ انہوں نے فتوی کی زبان منہ سے نکالی اور کہا، "نہیں جب کہ دیا کہ انشاءاللہ کہنے سے وعدہ نہیں ہوتا تو نہیں ہوتا۔ آپ سے وعدہ لینا مقصود ہے تاکہ آپ بات سے پھر نہ سکیں اور اگر پھریں تو آپ کو وعدہ پورا نہ کرنے کے وبال کا سامنا کرنا پڑے، اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک آپ انشاءاللہ بیچ سے نکال نہ دیں۔" ہم نے دوست کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔ البتہ دوست نے سرے سے وعدہ کرنے سے ہی انکار کر دیا۔

.........................................


مفتی نامہ 22
۔۔۔۔۔۔۔۔

میں جس مسجد اور مدرسہ میں کچھ عرصہ زیر تعلیم تھا۔ وہاں ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ مسجد کا مینار کا اوپر والا حصہ ڈھے گیا ہے۔ مینار مین نیچے سے اوپر تک سیڑھیاں جاتی تھیں۔ اور اوپر والے حصے میں کم ہی کوئی آتا جاتا تھا۔ ایک دو دن میں پتا چل گیا کہ ہمارا ایک ہم جماعت جو حافظ بھی تھا اور اب درس نظامی پڑھ رہا تھا، قوم لوط والے عمل کا عادی تھا، اس نے مسجد کے اس مینار میں ایک اور بچے کو نشانہ بنایا تھا۔ وہ بچہ خوف کے مارے چپ رہا، جب اس کا بھائی آیا تو اس نے اسے بتایا اور ہمیں معلوم ہوا۔ یہ صاحب یہ حرکت کئی دفعہ کر چکے تھے۔ لیکن بہت خوبصورت آواز کے مالک تھے۔
 تلاوت کرتے تو سماں بندھ جاتا۔ آذان دیتے تو لوگ نماز کے لیے کھنچے چلے آتے۔ انہیں خصوصیات کی وجہ سے مفتی صاحب کی کوشش تھی کہ اسے نکالنا نہ پڑے، کسی طرح سدھر جائے، اور رمضان میں اس کی وجہ سے تراویح کا جو رش پڑتا ہے وہ متاثر نہ ہو۔

جب کبھی وہ نماز میں قوم لوط سے متعلق آیات تلاوت کرتا تو میں حیرت سے سوچتا کہ ان آیات کو پڑھتے ہوئے، سمجھتے ہوئے بھی وہ یہ کام کیسے کر لیتا ہے۔

مسجد مدرسہ قرآن، کسی چیز کا تقدس ایسے لوگوں کو اپنی گھناؤنی حرکتوں سے روک نہیں سکتے۔

اس کے علاوہ کئی قاری حضرات کو اسی مسجد سے اسی جرم میں مار مار کر نکالا گیا۔ عین قرآن سنتے ہوئے تو وہ بچوں کے چھوتے اور اپنی تسکین کرتے تھے۔

نہ پوچھیں کیا کیا دیکھا اور کیا کیا سنا ہے۔

گندگی کی یہ پوٹلیں کھولنا کبھی مقصود نہ تھا لیکن خدارا اپنے بچوں کو مددرسہ یا کہیں بھی بھیجنے کے بعد بے فکر نہ ہو جایا کریں۔ میں اس میں بڑا قصوروار والدین کو بھی سمجھتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی نامہ 23
مفتی صاحب اور چھپکلی
۔۔۔
مفتی صاحب نے جوتا اتارا اور تاک کر دیوار سے لگی چھپکلی پر دے مارا۔ مفتی صاحب کا یہ نشانہ بھی نہ چُوکا۔ چھپکلی مری تو نہیں البتہ آدھ موئی سی زمین پر گر گئی۔ مفتی صاحب چھوڑ کر چل دیئے۔ میں نے عرض کیا کہ اسے ختم ہی کر دیجیے۔ اب یہ نہ جینے کی ہے نہ مرنے کی۔
مفتی صاحب مے وفور علم و فہم میں ڈوبی زبان حق ترجمان سے ارشاد فرمایا کہ پہلی ضرب سے چھپکلی کو مارنے کا ثواب زیادہ ہے۔ جتنی ضربات اور لگیں اتنا ثواب کم ہو جائے گا۔ اسے پڑا رہنے دو۔ یہ مرے گی تو اب اسی ضرب سے مرے گی۔