Tuesday 6 October 2015

خود اگائے پودے اور خود رو طلباء

میں اسلام آباد کے ایک  کالج میں کنٹریکٹ پر بھرتی ہوا تھا۔ پرنسپل صاحب ساری زندگی بیوروکریسی میں گزار کر، 19 گریڈ حاصل کرنے  کے بعد، اب شعبہ تعلیم کو اپنے تجربات سے مستفید کرنے کے لیے اپنی چاہت سے بطورِ پرنسپل تعینات ہوئے تھے۔  پرنسپل صاحب پوٹھوہار سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنی ثقافت سے بہت زور سے جڑے ہوئے تھے۔ پیڑ، پودے، کھیتی باڑی ان کے دل و دماغ کی آماج گاہ تھے۔ کالج کےتعلیمی اور ظاہری حالات  دونوں  ہی دگرگوں تھے۔  پرنسپل صاحب نے ظاہری حالت کو ٹھیک کرنے کی ٹھان لی۔ شاید ان کا خیال تھا کہ جیسے ایک صحت مند دماغ ، صحت مند جسم میں ہوتا ہے اسی طرح کالج کی خوبصورتی سے معیارِ تعلیم خود بخود اچھا ہو جاتا ہے ۔ جیسے ہمارے حکمران سمجھتے ہیں کہ سڑکیں بنانے اور میڑو بس چلانے سے ،  اور طلباء کو سفری سہولتین دینے سے  طلباء کا معیارِ تعلیم اور عوام کا معیارِ زندگی خود بخود  بہتر ہو جاتے ہیں۔  خیر پرنسپل صاحب نے آتے ہی کالج کی آریش و زیبایش پر خصوصی توجہ مرکوز کر دی، حالانکہ  ان کا تعلق نہ  ن لیگ سے تھا اور نہ ہی فوج سے۔
پرنسپل صاحب کا ذوق دیکھتے ہوئے ، سٹاف میٹنگز میں بھی پودوں کی مختلف اقسام، مختلف موسموں کے مختلف پودوں، ان کی بیماریوں اور ان کے علاج وغیرہ جیسے' تعلیمی' موضوعات زیرِ بحث رہتے۔ طلباء  کے کسی مسئلہ  کا ذکر آتا تو وہ یا تو نظر انداز کر دیا جا تا یا کسی اور کے حوالے کر دیا جاتا۔  کیاریوں کی آرایش اور گھاس کی کٹائی  پر معرکۃ الآرا مباحث ہوتے۔ جنرل میٹنگز میں  اساتذہ  کے سپاس نامے، پرنسپل صاحب کی ان شاندار خدمات کے  تذکرے  سے ہی بھرے ہوتے۔ اس کے علاوہ انہیں کوئی بات نہ سوجھتی۔ کالج کے  مالی تو کام پر لگائے ہی ہوئے تھے، مگر پرنسپل صاحب کو اطمینان نہ  ہوتا تھا۔ چنانچہ  ان کی نگرانی کے لیے اساتذہ کو مقرر کر دیا جاتا لیکن صرف جونئیر اساتذہ کو۔ اساتذہ سارا دن مالیوں کے اوزار پورے کرنے، مرمت کروانے اور دھوپ میں ان کی نگرانی کرنے میں لگے رہتے۔  کالج دن دگنی رات چوگنی رقی کرنے لگا۔

ایک دن پرنسپل صاحب نے کالج کے مختلف شعبہ جات، اساتذہ کے حوالے کرنے کے لیے میٹنگ بلوائی۔ ہر ایک سے پوچھا گیا کہ آپ کونسا شعبہ لینا چاہیں گے۔ بات جب مجھ تک آئی اور میرے دل کی بات میری زبان تک آ گئی۔ میں نے عرض کیا ، " مجھے سٹوڈنٹ افئیرز کا شعبہ دے دیا جائے۔ مجھے طلباء کے تعلمیی، جذباتی اور نفسیاتی مسائل حل کرنے میں دلچسپی ہے۔ میں ان خود رو پودوں کی تراش خراش کرنا چاہتا ہوں (یہ آخری جملہ میں نے دل میں کہا)"۔  پرنسپل صاحب کو مجھ سے جیہ امید نہیں تھی۔ مالیوں کے ساتھ پھول، پودوں کی دیکھ بھال اور گھاس کٹائی  کے سلسلے میں  میری ک عمدہ کارکردگی کے  مشاہدہ کے بعد انہیں توقع نہیں تھی کہ میں پودوں سے بے وفائی کر کے خود رو پودوں (طلباء) کو چنوں گا۔ انھوں نے اس غیر متوقع جواب پر کچھ دیر توقف کیا اور پھر کسی دوسرے شریکِ محفل استاد سے مخاطب ہو کر بولے، ' اچھا، آپ یہ بتائیں کہ اگر کالج کے پچھلی طرف والی زمین جس پر جھاڑ جھنکار اگ آیا ہے، وہ اگر ٹھیکے پر کھیتی باڑی کے لیے دے دی جائے تو کتنی گندم اور مکئی پیدا ہو سکتی ہے؟"

No comments:

Post a Comment