Saturday 29 August 2015

ایک مولوی صاحب کی ایک غیر مسلم کو 'اسلام' کی دعوت

غیر مسلم: مولوی صاحب،  مجھے امن وسکون کی تلاش ہے۔ یہ امن و سکون مجھے کیسے ملے گا؟
مولوی صاحب: امن وسکون اللہ کے ذکر میں  ملےگا۔
غیر مسلم: یہ ذکر کیسے حاصل ہوگا مجھے؟
مولوی صاحب: اسلام قبول کر لو ،۔۔ اللہ کا ذکرو۔ تمہیں دنیا اور آخرت کا امن نصیب  ہوجائےگا۔
غیر مسلم: میں تیار ہوں، مجھے کیا کرنا ہوگا؟
مولوی صاحب:  کلمہ شہادت ادا کرو کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ اس کے بعد پانچ وقت نماز پڑھنی ہوگی ، رمضان میں روزے رکھنے ہوں گے، دولت ہو تو حج اور زکوۃ ادا کرنی ہوگی۔
غیر مسلم: اس سے مجھے  امن وسکون مل جائے گا؟
مولوی صاحب: یقیناً!
غیر مسلم: ٹھیک ہے۔۔۔ مجھے منظور ہے۔۔۔۔ آپ کا بہت شکریہ۔۔۔میں چلتا ہوں۔
مولوی صاحب: ارے محترم ا! س کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
غیر مسلم: اچھا وہ کیا؟
مولوی صاحب: آپ کو اس دعوتِ امن یعنی اسلام کو دنیا میں پھیلانا ہوگا۔ آخر امن و سکون کا پیغام دوسروں تک بھی تو پہنچنا چاہیے نا۔
غیر مسلم؛ جی ،بالکل درست۔ یہ کام تو آسان ہے۔ ہمارے ملک میں کسی بھی دین کی دعوت و تبلیغ پر کوئی پابندی نہیں۔ میں سب کو یہ دعوت دوں گا۔
مولوی صاحب: لیکن  ایک مسئلہ ہے۔
غیر مسلم: جی وہ کیا؟
مولوی صاحب:  وہ یہ کہ جب تک  غیر مسلم ،کافر حکومتیں موجود ہیں،  اسلام کی  دعوت مؤثر طریقے سے دنیا کو دینا ممکن نہیں۔
غیر مسلم: وہ کیوں؟  جب غیرمسلم ملکوں میں دعوت اور تبلیغ پر کوئی پابندی نہیں ہے تو کیا مسئلہ ہے۔ آپ کی تبلیغ سے اگرکوئی اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہو جائے  تو غیر مسلم حکومتیں اس  میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ڈالتیں۔
مولوی صاحب: وہ تو ٹھیک ہے، لیکن انسان  کی یہ کمزوری ہے کہ وہ طاقت سے متاثر ہوتے ہیں۔  جب تک غیر مسلم حکومتیں موجود ہیں لوگ ان کی طاقت اور شان و شوکت کی وجہ سے اسلام کی دعوت کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔ کفار کی حکومتوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کو اسلام کے زیرِ نگیں کرنا ہوگا ،تب ہی لوگ اسلام کی دعوت  سے متاثر ہوں گے اور مسلمان ہوں گے۔
غیر مسلم: اچھا! تو اس کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
مولوی صاحب: اس کے لیے جہاد کرنا ہوگا۔ کافروں کے خلاف جنگ کرنی ہوگی۔ لیکن، اسلام امن کا دین ہے۔ اس لیے ہم انھیں پہلے دعوت دیں گے کہ اسلام قبول کر لو اسی میں تمہاری خیر ہے۔ اگر نہیں تو ہماری ماتحتی میں آ جاؤ اور جزیہ ادا کرو، اور اگر یہ بھی منظور نہیں تو جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔
غیر مسلم: اچھا!! تو یہ بتائیے کہ  مسلمانوں کی کون سی حکومت کرے گی  یہ جہاد؟
مولوی صاحب: مسلم حکومتیں  تو خود غیر مسلم حکومتوں کے تابع ہیں۔ وہ کیا جہاد کریں گی۔یہ جہاد تو ہم جیسے لوگوں کو ہی کرنا ہوگا جن کے دل میں اسلام کادرد ہے۔
غیر مسلم: تو آپ کا مطلب ہے ہم کچھ لوگ مل کر جہاد شروع کردیں؟
مولوی صاحب: ہاں، اور اس کے لیے افراد کو اکٹھا کیا جائے۔
غیر مسلم: کتنے افراد؟
مولوی صاحب: جتنے بھی ہوجائیں۔ مسلمان تعداد پر بھروسہ نہیں کرتا۔  اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ فرشتے اس کی مدد کو کافی ہیں۔
غیر مسلم؛ تو ہم دو بھی تو 'افراد' ہی ہیں، ہم شروع کردیتے ہیں۔
مولوی صاحب: نہیں  نہیں، کچھ تو زیادہ ہونے چاہیے۔  آخر حکومتوں سے ٹکر لینی ہے۔
غیر مسلم:تو کتنے افراد کے بعد آپ اللہ پر بھروسہ شروع کریں گے؟
مولوی صاحب: آآآ۔۔۔۔ ایک تو تم نو مسلم لوگ سوال بہت کرتے ہو۔ پس کچھ اتنے  افراد ہوجائیں کہ  ایک گروہ تو بن جاسکے، جس کا ایک امام ہو۔
غیر مسلم :  پھر  تو جس کا جی چاہے اٹھے اور گروہ بنا کر جہاد  شروع کر دے۔ یوں تو بہت سے گروہ بن جائیں گے اور ان کے مختلف امام ہوں گے۔  ان کےآپس میں اختلافات بھی  ہو سکتے ہیں۔اس طرح ہڑبونگ نہیں مچ جائے گی کیا؟
مولوی صاحب: ہونا تو یہی چاہیے کہ ایک ہی امام کے تحت جہاد ہو مگراب کیا کیا جائے۔ ایسا تو ہوتا ہی ہے کہ مختلف گروہ بن جاتے ہیں ۔ بہرحال، اس میں  بھی کوئی حرج نہیں۔ جہاد ہونا چاہیے بس۔
غیر مسلم: تو ان  مختلف گروہوں میں سے کون ہوگا  جو  غیر مسلم حکومتو ںکو شکست دینے کے بعدحکومت قائم کرے گا؟  خلیفہ کون بنے گا؟
مولوی صاحب: بھئی یہ باتیں آپ اللہ پر چھوڑ دیں۔
غیر مسلم: اللہ پر کیوں؟ آپ جہاد اللہ پر نہیں چھوڑ رہے ، بلکہ خود کر رہے ہیں تو یہ معاملہ بھی تو انسانوں کے کرنے کا ہے  ، اس کو اللہ پر کیسے چھوڑ دیں؟
مولوی صاحب: تم ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہونا، اس لیے عقل کا بےجا استعمال کر رہے ہو۔ کچھ دن ہمار ے ساتھ رہو گے تو ٹھیک ہو جاؤ گے۔
غیر مسلم: اچھا،  توکیا آ پ کو یقین ہے کہ آپ  کافر حکومتوں کو شکست دے سکتے ہیں؟
مولوی صاحب:تم نےوہ سنا نہیں کہ: "مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی "۔ اور اللہ کہتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔
غیر مسلم: تو اگر آپ غالب نہ ہوئے تو اس کا مطلب آپ مومن نہیں ہیں؟ اور چونکہ ابھی تو دنیا  میں کافر ہیں غالب ہیں تو کیا کوئی بھی مومن نہیں؟
مولوی صاحب: یہ اللہ کی آزمائشیں  ہیں۔تم ابھی نہیں سمجھو گے۔
غیر مسلم: کافروں کے پاس باقاعدہ فوج ہے، ٹیکنالوجی ہے، طاقت ہے۔ آپ کے پاس کیا ہے؟
مولوی صاحب: ہمارے پاس اللہ ہے!
غیر مسلم: ہیں جی؟
مولوی صاھب: جی۔ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
غیر مسلم: اچھا ،اگر آپ کسی کافر حکومت کو محکوم بنا لیں گے تو پھر کیا کریں گے؟
مولوی صاحب: ان کے مردوںاور بچوں کو غلام بنا لیں گے اور ان کی عورتوں  کو لونڈیاں بنا لیں گے۔
غیر مسلم: تو اس طرح وہ اسلام قبول کرلیں گے؟
مولوی صاحب: اس ذلت سے نکلنے کے لیے انہیں اسلام قبول کرنا ہی بہتر لگے گا۔
غیر مسلم:لیکن ایسا ایما ن وہ اللہ پر تو نہ لائیں گے بلکہ اپنی مصیبت سے چھٹکارے کے لیے اسلام قبول کریں گے۔ کیا ایسا اسلام قابلِ قبول ہوگا؟
مولوی صاحب: ایمان  قبول کرنے کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔
غیر مسلم: اچھا! یہ بتائیے کہ  یہ جہاد کب تک کیا جاتا رہے گا؟
مولوی صاحب: جب تک ساری دنیا پر اسلام کی حکومت قائم نہیں ہو جاتی، ہم اسی طرح کفار کے ساتھ لڑتے رہیں گے۔
غیر مسلم: پھر تو یہ لڑائی  کبھی ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔
مولوی صاحب: جی ہاں، جہاد قیامت تک مسلسل جاری رہے گا۔
غیر مسلم: تو وہ امن کہاں گیا جس کا دعوی  اسلام کرتا ہے اور جس کے لیے میں آپ کے پاس حاضر ہوا تھا؟
مولوی صاحب: بھئی ،امن بھی آجائے گا، جب اسلام کا غلبہ ساری دنیا پر ہوجائے گا۔
غیر مسلم: محترم ہمارا  ملک ایک غیر مسلم ملک ہے، جس نے آپ مسلمانوں کو اپنے ہاں  روزگار دیا  ہوا ہے، مسجدیں ، مدرسے، اجتماع کی اجازت دی رکھی ہے۔ دعوت اور تبلیغ  کی بھی اجازت دی   ہوئی ہےکہ جس کو چاہیں مسلمان بنا لیں،آپ کو انصاف دیا،  امن دیا۔ اور آپ  یہاں مجھے  یہاں یہ سکھا رہیں کہ میں آپ کے ان محسنوں  سے جنگ کروں، انہیں لونڈی اور غلام بنا لوں۔ آپ مجھے امن و سکون حاصل کرنے کا یہ طریقہ سکھا رہیں کہ میں  ساری دنیا کا امن خطرے میں ڈال دوں۔۔۔۔ مجھے ایسا امن نہیں چاہییے۔
مولوی صاحب: تو تم مرتد ہو رہے ہو؟ تم واجب القتل ہو گئے ہو۔ ارے او!  لانا میری بندوق، اس مرتد کو تو یہیں ٹھکانے لگا کر ثوابِ دارین حاصل کرتا ہوں۔

(بندوق آنے سے پہلے ہی غیر  مسلم نودو گیارہ ہوگیا اور مولوی صاحب ثواب ِ دارین سے محروم رہ گئے)

Thursday 20 August 2015

پاکیزہ محبت

محبت اور وہ بھی پاکیزہ محبت۔ ایک ایسی نعمتِ غیر متبرکہ کہ بس نہ پوچھئے۔  ایسی محبت جسے ملے  وہ یہ گاتا ہوا پایا جاتا ہے کہ
میں روؤں یا ہنسوں
یارو میں کیا کروں
میں تو ایسوں سے بھی واقف ہوں جن کی محبت کی یہ پاکیزگی شادی کے بعد بھی نہیں گئی۔ ایسی پاکیزہ محبت اگر جنت میں بھی ہوتی تو جنت کی ساری ایٹریکشن ہی ختم ہو جاتی۔ بلکہ جنتی جنت چھوڑ کے چلے جاتے۔  حوروں اور وہ بھی کم سے کم ستّر حوروں کے ساتھ ' غیر پاکیزہ ' محبت کا انسنٹیو ہی ہے جو جنتیو ں کو جنت سے بھاگنے نہیں دے گا۔ شاعر کب کا کہہ گیا تھا مگر سمجھ نہیں آئی کہ
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا

 انسان کو انسان رہنے دو فرشتہ نہ بناؤ۔ خدا نے تو اسے جنت میں بھی انسان رہنے دیا ہے اور تم اسے یہاں بھی فرشتہ بنانا چاہتے ہو۔ 

Tuesday 18 August 2015

سید احمد شہید کی تحریکِ جہاد: ایک مطالعہ

سید احمد شہید کی تحریک جہاد عملی طور پر 1826سے شروع ہوئی اور 1831 میں آپ کی شہادت پر اختتام پذیر ہوئی۔ تاہم  غیر منظم طور پر یہ 1857 کے بعد بھی مسلح جہاد کی صورت میں چلتی رہی۔ اس تحریک نے اور بھی بہت سے تحاریکِ جہاد کو جنم دیا، جو اسی انجام کو پہنچی جو اس تحریک کو پیش آیا، مثلاً  بنگا ل میں تیتو میر کی تحریک، تحریک ریشمی رومال اور صادق پور  پٹنہ کا مرکزِ جہاد، جہادِ شاملی وغیرہ۔
دورِ حاضر میں ابو الحسن ندوی، مولانا غلام رسول مہر وغیرہ کی تحقیقات اور تصنیفات نے اس تحریک کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔ خصوصاً  ابو الحسن ندوی کی سیرتِ سید احمد شہید پڑھ کر ایک عام قاری کا یہ تاثر ہوتا ہے کہ اگر کوئی دین کی حقیقی خدمت کرنا چاہتا ہے تو یا تو خود  کوئی تحریکِ جہاد اٹھا دے  اگر اس قابل ہے یا  پہلے سے موجود کسی جہادی تنظیم کا حصہ بن کر اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اپنی جان دے کر سرخرو ہو جائے۔ یہ کتب طالبان جیسی تحریکوں کو مسلسل افرادی قوت مہیا کرنے کا مستقل ذریعہ ہیں۔  
سید صاحب کی تحریک کا نظریاتی اور  حکمتِ عملی کا  جامع تجزیہ کرنے کی آج بھی ضرورت ہے، کیونک آج بھی  یہ تحریک سیاسی دینی تحریکات کے لیے، خصوصًا برّصغیر میں، سب سے بڑے محرک کی حیثیت رکھتی ہے۔  سید صاحب کی تحریک  شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد العزیز کے نظریات سے مولود ہوئی۔ برصغیر کے بعد پوری دنیا میں غلبہ ء اسلام اس کا مطمح ِ نظر تھا ۔ پنجاب   میں سکھوں کے ظلم وستم  کا استیصال اس کا اولین ہدف تھا ۔ بالاکوٹ میں سید صاحب  اور آپ کے قریبی احباب  کی شھادت کے بعد بھی بہت عرصہ مسلح جدوجہد جاری رہی۔ تاہم،1857 کے بعد یہ تعلیمی جدوجہد میں تبدیل ہوئی اور مدرسہ دارالعلوم دیوبند، سہارنپور، ندوۃ العلماء ، اہلِ حدیث کے مدارس وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہوئی  جو اپنے طلباء میں جہاد کی آبیاری کرتے رہے۔  کانگریس کے قیام کے بعد یہ تحریک سیاسی جدوجہد میں تبدیل ہوئی۔ پہلے جمیعت علمائے ہند اور پھر جمیعت علمائے اسلام کی صورت میں اس تحریک کے لواحقین  دو الگ راستوں کے راہی بنے۔ جمیعت علمائے ہند نے، ہندوستان کے نئے  سیاسی منظر نامے کے  معروضی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے  ،  مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے  نظریے  سے دستبردار ہو کر مشترکہ  قومیت اور جمہوریت کے اندر سیکولر ازم کے ذریعے مذہبی آزادی کے خیالات  کو اپنا لیا ۔ لیکن جمیعت علمائے اسلام ،سید صاحب کے نظریے سے  زیادہ قریب رہی۔ اس نے مسلم لیگ کے  الگ وطن کی جدوجہد میں اسلامی سلطنت کا خواب پھر سے استوار ہوتے دیکھا تو اس میں شامل ہوگئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد، حکومتوں کے اسلام نافذ کرنے سے گریز کی روش کی وجہ سے  یہ تحریک آئینی جدجہد میں  تبدیل ہو گئی۔ پھر یہ بتدریج جارحانہ ہوتی چلی گئی۔ تحریکِ نفاذِ نظامِ مصطفی   سے یہ احتجاج میں تبدیل ہوئی اور تحریک نفاذِ شریعت اور طالبان  کی صورت میں پھر سے مسلح ہوگئی۔ یوں دیکھئے تو سید صاحب کی تحریک تاریخ کا چکر کاٹ کر پھر اسی نقطہ پر کھڑی ہوگئی جہاں سے چلی تھی۔
 سید صاحب کی تحریک کی بنیاد حکومتِ الہیہ کے قیام،  نجی جہاد، امامت اور  شاہ عبد العزیز کے دارالحرب  کے فتوی پر تھی ۔ سید ساحب کے نزدیک، شاہ ولی اللہ کے تعلیمات کی روشنی میں، قیامِ خلافت یا اسلام کا سیاسی غلبہ واجباتِ دین میں سے ہے۔ ہندوستان میں غیر مسلم کے بڑھتے اقتدار کے نتیجے میں  شاہ عبد العزیز کے فتوی کی رُو سے ہندوستان دارالحرب  بن چکا تھا۔ اسلامی سیاسی غلبہ کے لیے جہاد فرض تھا اور چونکہ کوئی مسلم حکمران اس کے لیے تیار نہ تھا تو چند لوگوں نے اس کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے نجی طور پر شروع کرنا ضروری سمجھا۔ اس کے لیے دستیاب امام سید احمد شہید تھے۔
 راقم الحروف  کے مطابق، سید صاحب کی تحریک کی یہ نظریاتی بنیادیں اسلام کی غلط تعبیرات سے پیدا ہوئیں، یہی تعبیرات ہمارے دور تک چلی آ رہی ہیں اور بےشمار تحاریکِ جہاد کو جنم دے چکی ہیں۔ راقم کے نزدیک، مسلمانوں کے لیے حالتِ اقتدار میں نفاذِ شریعت فرض ہے لیکن نفاذِ شریعت کے لیے حصولِ ریاست فرض یا واجب نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے صاحبِ مال کے لیے ادائیگیِ زکوۃ فرض ہے لیکن ادائیگیِ زکوۃ کے لیے کسبِ مال فرض یا واجب نہیں ۔نیزنجی جہاد کا کوئی تصور اسلام میں نہیں۔ جہاد امامت اور ریاست کے تحت ہی کیا جاسکتا ہے۔ جہاد کی اجازت اور احکامات ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل کیے گئے ہیں اس لیے جہاد و قتال سے متعلق تمام آیات کو ریاستِ مدینہ کے قیام کے بعد کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ حکومت کی کوتاہی سے اگر حدود کا نفاذ نجی شعبہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تو جہاد کو کیوں کر نجی شعبہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔   جہاں تک دارالحرب کے فتوی کا تعلق ہے تو کسی  جگہ کا  دارالحرب قرار پا جانے کے بعد  پہلا تقاضا ہجرت  ہوتاہے ،  لیکن ہمیں اس وقت کے ہند کے مسلمانوں یا کم از کم پنجاب کے مسلمانوں سے اس کا  مطالبہ نظر نہیں آتا۔ لاکھوں مسلمانوں میں سے زیادہ سے زیادہ پندرہ سو مسلمانوں نے سید صاحب کے ساتھ ہجرت کی تھی جو کہ انتہائی ناکافی تعداد ہے۔
 سید صاحب کے طریقہ کار میں نوٹ کیا گیا کہ آپ نے جہاد پہلے شروع کیا  (اکوڑہ کا شب خون)، بیعتِ امامت بعد میں لی (جب دیکھا کہ مقامی مجاہدین جنگ کی بجائے مالِ غنیمت کے کر چلتے بنے اور اس کی شرعی تقسیم پر آمادہ نہ ہوئے)، اس کے بعد ریاست کے حصول کی کوشش کی  اور اس کے بعد لوگوں پر شریعت کا نفاذ  کرنے کی کوشش کی جو اس کے لیے تیار نہ تھے۔ یہ ترتیب رسول ﷺ کی سنت کے بالکل برعکس ہے۔ آپؐ  کو مدینہ کے لوگوں نے اپنا امام پہلے تسلیم کیا، پھر خود سے ریاست مہیا کردی، آپؐ نے  ان کی مرضی سےان پر شریعت  نافذ کی ، اور  جہاد سب سے آخر میں کیا گیا۔ اس کے علاوہ  سید صاحب نے دشمن کے مقابلے میں عددی  قوت کےفرق کو نظر انداز کیا۔آپ کے پاس قابلِ بھروسہ جنگجوؤں کی تعداد 1500 سے زیادہ نہ تھی، جو پوری طرح مسلح بھی نہ تھے اور بنیادی ضروریات کی تکمیل  سے بھی تہی تھے ۔ جب کہ سکھوں کی صرف سرحدی فوج  8000 سے 10،000 تک تھی۔
اسلامی خلافت کا قیام دین کا کوئی ایسا واجب تقاضا نہیں کہ اس کی خاطر مہمیں چلائیں جائیں اور قیمتی جانیں قربان کی جائیں.  مسلمانوں پر صرف یہ فرض ہے کہ وہ جب بھی پرامن طریقہ سے  اقتدار میں آئیں، خواہ مطلق حیثیت سے یا مخلوط حکومت میں، تو مسلم معاشرے کے مسلم افراد پر اسلام کے اجتماعی احکامات کا نفاذ کردیں۔
مگر انہی باتوں کو واجب قرار دے کر جو تحریک برپا کی گئی تھی وہ آج بھی زندہ ہے۔ یہاں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر  ہم پہلے فریق (سید احمد شہید) کو درست قرار دیتے ہیں تو اس دوسرے فریق (طالبان) کو غلط نہیں کہہ سکتے. اگر دوسرا غلط ہے تو پہلے کی تغلیط کی ہمت بهی لامحالہ کرنی ہوگی. ہمیں اس دوغلے پن سے براءت کا اعلان کرنا ہوگا۔ سید صاحب کی اس  پراثر تحریک کا درست تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مستقبل کے اولوالعزم مسلمان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اسلام کی خدمت میں بہتر طور پر استعمال کیا  جا سکے۔
ڈاکٹر عرفان شہزاد

رکن مجلسِ ادارت 'البصیرہ' نمل اسلام آباد

Monday 17 August 2015

آسماں تک جائے گی خشبو میرے افکار کی۔ (سید مبارک شاہ کی وفات پر لکھا گیا)

سید مبارک شاہ
صبحِ دوامِ زندگی مبارک ہو!
27 جون ،2015 کو یہ اطلاع ملی کہ  نامورصوفی مزاج  شاعر سید مبارک شاہ صاحب  علالت کے باعث  اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے ۔ شاہ صاحب سے  میری پہلی ملاقات دسمبر 2013 میں ان کے گھر، واقع لالہ  زار ، راولپنڈی  میں ہوئی۔ ان کی   رہائش گاہ میرے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی ، لیکن  میں ان سے واقف نہ تھا۔ ان کی شاعری سے تعارف ایک شاعر دوست، شہباز رسول فائق کے توسط سے ہوا۔  ان کے اکثر اشعار  نے مجھے چونکا کر بلکہ ہلا کر رکھ دیا۔  ان کی شاعری میں مجھے اپنے دبے ،  تلملاتے  ہوئے خیالات  اور جذبات کا پرتو نظر آیا۔ وہ جو میں  سوچتے ہوئے بھی  گھبراتا تھا  وہ ان کے ہاں مسطور بلکہ منظوم  مل رہا تھا ۔ ان کا شعر
؎               بتا  ان  اہل  ایماں کی سزا  رکھی ہے کیا تو نے
خداوندا  جو تجھ کو  احتیاطا ً  مان  لیتے  ہیں
 تو میرا  وردِ زبان بن گیا ۔ جس محفل میں بھی ہوتا میں یہ شعر اکثر اپنے احباب کو سناتا اور وہ سب داد دینے سے زیادہ سوچ میں پڑ جاتے اور یہی اس شعر کی کامیابی تھی۔ میری آشفتہ سری ان کے ان جیسے اشعار سے ہم آہنگ تھی:
؎               ہمارے خالی ہاتھ میں تھما کے کاسئہ طلب
جواب کیا دیا گیا ،سوال کر دیا گیا
ترا کرم ہے زندگی تو پھر وہ لوگ کون ہیں
کہ جن پہ   یہ کرم ترا    وبال  کر دیا گیا
ہمیں تری عنائیتون سے ہیں بڑی شکائتیں
ہمیں ہمارا  رزق بھی اچھال کر دیا گیا
اس شعر میں  ' ہمارا  رزق' کہ کر شاہ صاحب نے انسانی خود داری کو کس ناز سے  خدا کے مقابل  مقابل لا کھڑا کیا ہے یہ ان کا ہی کمال ہے۔  جب یہ شعر پڑھا :
؎               کتنے پہرے سوچ پر ہیں  دوستو
اور پھر بھی سوچتا کوئی نہیں
تیرگی حدّ نظر تک تیرگی
اور پھر بھی دیکھتا کوئی نہیں
 تومیں ان کی شاعری پر فریفتہ ہو گیا۔  شاہ صاحب  سے ملاقات ناگزیر محسوس ہوئی۔ اگرچہ میں اہل فکرونظر سے ملاقاتوں کا اتنا خواہاں نہیں ہوں، اس لیے کہ یہ ضروری نہیں کہ اہل فکرونظر کی فکرونظر ان کی شخصیت  یا کردار سے ہم آہنگ بھی  ہو۔ نیز مجھے شخصیت سے زیادہ اس کے کلام سے غرض ہوتی ہے۔ تاہم اپنے فکری مثنی کو پالینے کے بعد اس سے ملاقات کی  یہ بے تابی فطری بات تھی۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے ان کو پہلا برقی پیغام بذریعہ موبائل فون  ارسال کیا تھا۔ جس میں ،میں نے لکھا تھا کہ آپ کی شاعری مجھے قتل کیے دے رہی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ ناموری کے لئے نہیں ، بلکہ اپنے اندر ہونے والی کشمکش کےاظہار کے لیے لکھنے پر مجبور ہیں۔  اس پر ان کا فون مجھے آیا اور مجھے ملاقات کی دعوت دی۔
ان سے مل کر میرا وہی حال ہوا جو رشید احمد صدیقی کا علامہ اقبال کو دیکھ کر ہوا تھا۔ لیکن یہاں ترتیب الٹ گئی تھی۔ ان کی شاعری میں خدا سے جو شکوہ شکایت تھی اس سے مجھے لگا کہ وہ ایک پراگندہ حال، بےزار قسم کے، سگریٹ پہ سگریٹ پھونکنے والے شاعر ہوں گے ،لیکن وہ  نہات نفیس، سلجھے ہوئے  انسان تھے ، جو ایک اعلی عہدے پر فائز تھے۔ تب ان کی شاعرانہ عظمت میرے دل  میں دو چند ہو گئی ۔ خدا سے ان کا شکوہ ،  ان کے ذاتی حالات کی بنا پر نہیں تھا،    یہ وہ آفاقی ، انسانی درد تھا جو  صرف ایک حساس دل میں قیام منظور کرتا ہے ،  کہ
؎               'ہر ظرف کہا ں ہے اس قابل بن جائے غمِ جاناں کا امیں
 شاہ صاحب گویا  ' سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے' کا عملی اور علمی نمونہ تھے۔
میں نے ان کو اپنے اندازے سے زیادہ گہرا  پایا۔ ان کی ساری فکر کا محور خدا  تھا۔ وہ اس پر گویا حق الیقین کے ساتھ ایمان رکھتے تھے۔ لیکن اس کے  ساتھ بقول ان کے، وہ لڑتے بھی تھے، ناراض بھی ہوتے ، سرگوشیاں بھی کرتے، گلے بھی کرتے، گویا لا ملجاء من الله الا الیه  والا حال تھا۔
انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ میں علوم اسلامیہ میں ڈاکٹریٹ کر چکا ہوں تو وہ نہایت خوش ہوئے۔   وہ سمجھے تھے کہ میں محض ادبی ذوق کی بنا پر ان کے پاس آیا  تھا۔ لیکن علوم  اسلامیہ سے میرے تعلق کا سن  کر وہ کچھ مطمئن سے ہو گئے  کہ میں ان کی شاعری کو بہتر طور پر سمجھ سکوں گا  کیونکہ ان کی ساری شاعری قرآن اور تصوف سے کشید کی گئی تھی ۔ چناچہ وہ زیادہ گہرائی سے اپنی شاعری اور اس کے فکری ماخذات  (یعنی قرآن اور تصوف خصوصا  منصور حلاج) کی وضاحت  مجھ سے کرنے لگے۔  اس کے علاہ وہ اپنے دیگر کاموں اور فکری مسائل کا ذکر بھی کرنے لگے۔ وہ ایک کتاب  بھی لکھ رہے تھے جن میں اسلامی فقہی اور کلامی مسائل پر اپنی تحقیق لکھ رہے تھے۔ اس کتاب کے  تناظر میں مجھے یاد ہے ان کا یہ فرمانا،  'عرفان، میری اور تمہاری بہت لڑائی ہونے والی ہے'۔ اور میں نہایت مشتاق تھا کہ کب یہ 'لڑائی ' ہوگی مگر افسوس کہ  وہ لڑائی  کبھی نہ ہوسکی۔
وہ قرآن مجید   کا مطالعہ بہت کرتے   تھے  ، قرآن مجید اور منصور حلا  ج  کا   کلام ہی تھا جن سے وہ اپنی فکرکبھی کشید کرتے تو کبھی اپنا جگر کشید کر کے دیکھتے کہ آیا  قرآن  اور کلامِ حلّاج ان کے ان خیالات کی موافقت کرتے ہیں  یا نہیں۔ اس ملاقات میں وہ اپنی شاعری اور قرآن کی آیت سے ان کی تطبیق مجھے دکھاتے اور سمجھاتے رہے۔ ان کی شاعری کا  تیسرا  حوالہ علامہ اقبال کا کلام تھا، جس سے وہ بہت متاثر تھے۔
اگلی ملاقات میں انہوں نے  اپنی شاعری اور منصور حلاج کے دیوان سے  اس کی  مناسبت اور مطابقت مجھے بتائی۔  انہوں نے بتایا کہ منصور حلّاج  کا  کلام ان کو بہت بعد میں کسی دوست کے توسط سے ملا  تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حلاج کا کلام پڑھ کر ان کو شدید حیرت ہوئی تھی کیونکہ منصور اور شاہ صاحب کے کلام میں توارد کثرت سے تھا۔ انہوں نے اس کے شواہد مجھے دکھائے کہ کس کس جگہ منصور اور ان کے کلام میں توارد ہوا، انہوں نے  منصور حلاج کے کلام میں وہ تمام مقامات نشان زد کیے ہوئے تھے۔  یہاں تک کہ ان کی پوری کی پوری  نظمیں منصور حلاج کے کسی ایک مربوط کلام کا  توارد معلوم ہوتی تھیں۔  یہ امر میرے لیے بھی  باعثِ حیرت تھا۔   حلاج اور شاہ صاحب کے کلام کے توارد پر تحقیقی کام ہونا چاہیے۔منصور حلاج کے ساتھ ان کے اس تعلق کا سارا خلاصہ ان کی نظم ' زمانے کی تاریخ شاہد رہے گی' میں آ گیا ہے۔ اور یہ نظم بھی شاہکار ہے۔
ان کو  arthritis  کا مرض لاحق تھا ۔ جس سے وہ سخت تکلیف کا شکار تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس کا علاج ممکن نہیں ۔ تاہم وہ خدا کی رحمت سے مایوس نہیں تھے ا انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ   راتوں کو تہجد  میں خدا سے شکوہ ، دعا اور مناجات کرتے تھے۔ خدا سے ان کے مضبوط تعلق اور  ان کی روحانی طاقت کا  سب سے بڑا ذریعہ  شاید یہی تھا۔  انہیں احساس تھا کہ موت بہت تیزی سے ان کی طرف بڑھتی آ رہی ہے، لیکن میں نے محسوس کیا کہ ان کو موت سے ذرا بھی وحشت نہیں تھی۔ بڑے اطمینان سے کہتے کہ میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔  اسی لیے شاید وہ تھوڑے وقت میں پہت کچھ بولتے تھے جیسے دل و دماغ کی ساری دولت اس تہی دست دنیا میں جلد سے جلد  لٹا کر جانا چاہتے ہوں۔  موت کے بارے میں تو ان کی بے نیازی کا یہ حال تھا کہ لکھتے ہیں:
؎               اتنی ذرا سی بات کو اتنا نہ طول دے
اس  داستانِ عمر کا اب اختتام کر
نیز
یہ ہر دن تھوڑا تھوڑا کر کے مرنے کا تکلف کیا
یہ کام اک روز بہتر ہے کہ  سارا کر لیا جائے
اور
؎               جادہ شوق مسافت دیکھتا ہی رہ گیا
سانحہ یہ ہے کہ منزل راستے میں آ  گئی
انہوں نے اپنی کتابوں پر کسی بڑے شاعر یا ادیب سے تقریظ نہیں لکھوائی۔ انہیں یہ پسند نہیں تھا  کہ وہ اپنی پراڈکٹ  کی پبلیسٹی کے لیے کسی بڑی شخصیت سے مارکٹنگ کروایئں۔  یہ  بات  ان کے بڑے پن کی عکاس ہے ۔  ان کی کتاب پر پیش لفظ لکھا تو محترم سلطان ناصر  صاحب  نے۔ اور وہی اس کے مستحق بھی   تھے۔ سلطان ناصر صاحب  ،  نے وہ مقدمہ لکھ کر شاہ صاحب کی شاعری کے تعارف کا حق ادا کر دیا۔ ایسا فنا فی الممدوح  مقدمہ میں نے فقط مولانا تقی عثمانی صاحب کا ان کے بھائی ذکی کیفی کے کلیات 'کیفیات' میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سلطان ناصر کا پڑھا۔
میری کوشش تھی اور ان کی تمنا  بھی تھی کہ ان پر کوئی اچھا تحقیقی کام ہو جائے۔  ان پر ایک تحقیقی کام  پہلے ہو چکا  تھا۔ میں نے  اس سلسلے میں اپنی شریکِ حیات ، ڈاکٹر صائمہ نذیر، جو کہ نمل کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ،  سے کہہ رکھا تھا کہ شاہ صاحب پر کسی قابل طالبِ علم   سےکام کروانا ہے۔ حال ہی میں ان  کی شاعری پر ایک مقالہ منظور  ہوا  تھا۔ جس میں ان کے حسبِ خواہش ترمیم بھی کردی گئی تھی مگر افسوس وہ اس کاوش کو شرمندہ تعبیر  دیکھنے سے پہلے ہی اپنے خالق سے جا ملے۔ شاہ صاحب ایک بڑے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری  کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا  کلام   اردو ادب کا اہم اثاثہ ہے ، اور اس کا ادراک جتنا جلد ہو جائے اتنا اچھا ہے ۔ شاہ صاحب کو یقین تھا اور مجھے بھی ہے کہ:
؎               آسماں تک جائے گی خوشبو مرے افکار کی

                جب تعفّن جسم کا  زیرِ زمیں ہو جائے گا

طالبان مسئلے کے سماجی اور نفسیاتی عوامل

پاکستان میں حالیہ فوجی آپریشن سے طالبان کی کاروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ لیکن کیا اس بات کیا ضمانت دی  جا سکتی ہے کہ شدت پسندی کی یہ آگ مکمل طور پر بجھ چکی ہے  ، اور آیندہ  سانحہ پشاور وغیرہ   جیسے المیے دوبارہ  برپا نہیں ہوں گے۔  طالبان  مارے  تو جا رہے ہیں لیکن کیا وہ حالات اور ذہنیت بھی ختم کی جا  رہی ہے جو طالبان  بناتی ہے ۔
طالبان مسئلے کے علمی اور نظریاتی  پہلوؤں پرمختلف فورمز پر تو آئے روز بات ہوتی رہتی ہے، لیکن اس مسئلے کے سماجی اور نفسیاتی پہلو پر کم ہی توجہ د ی گی ہے۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا اگر عملی نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو اس کی جڑ طالبان کے سماجی اور نفسیاتی عوامل میں زیادہ ملے گی۔ان کا علمی نظریہ تواس کا ظاہری پیرہن ہے جس کے پردے میں یہ عوامل کارفرما ہیں۔ 
طالبان فدائی حملے کیوں کرتے ہیں ؟یہ اپنے ہم قوم افراد کو نشانہ کیوں بناتے ہیں ؟ اپنے ہم مذہب مسلمان قیدیوں کے گلے کیوں کاٹ ڈالتے ہیں؟ اس پر وہ اسلام اور خدا کا نام بھی لیتے اور خود کو خدا کا مددگار بھی سمجھتے ہیں۔ اس کا ایک سیدھا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ وہ مذہب کی ایک غلط تعبیر کا شکار ہیں ،مثلا وہ نفاذ اسلام کے لئے مسلح جدوجہد کودینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جمہوریت کو نظام کفر سمجھتے ہیں اور اس کے ماننے والے کو بھی کافر گردانتے ہیں ، اور چونکہ مسلمان اگر کفر کرے تو مرتد ہو جاتا ہے اس لیے فقہ کے مطابق واجب القتل ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جس سے میرے نقطہ ء نظر کی تفہیم میں مدد ملے گی۔ ہم بحیثیت مسلمان دین پر ایمان رکھتے ہوئے بھی دین کے اہم ترین احکامات پر بھی عمل کرنے پرکتنا آمادہ نہیں ہوتے؟ ہمارا حال بقول غالب
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد 
پر طبیعت اس طرف نہیں آتی
تو یہ بھی تو ممکن تھا کہ طالبان دین کی غلط تعبیر کے باوجود اس پر عمل پیرا نہ ہوتے۔ ہم مذہب کی واضح ترغیبات اور تہدیدات کے باوجود نماز تک نہیں پڑھ پاتے توایسا بھی تو ہو سکتا تھا کہ طالبان بھی اپنے اس نظرئیے کے باوجود اپنی جانیں قربان کرنے پر تل نہ جاتے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک لاابالی مسلمان نوجوان جو دین کی پرواہ نہیں کرتااچانک ہی پکا دین دار بن جاتا ہے۔ اس کی اس کایا پلٹ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی حادثے نے اس کی سوچ بدل دی یا کسی بات نے اس کے کسی احساس پر چوٹ کی اور اس کا رخ بدل گیا، وغیرہ۔ ایسا ہی کچھ طالبان کا معاملہ بھی ہے۔ یعنی نظریے کے ساتھ کچھ عوامل کا ہونا بھی ضروری ہے جو عمل پر آمادہ کر سکیں۔ 
نفاذ اسلام کے لیے طاقت کے استعما ل کا جواز تو حضرت امام حسین کے طرز عمل، امام زید کے خروج اور امام ابو حنیفہ کی امام زید کے لئے علمی اور اخلاقی حمایت(طالبان کی اکثریت حنفی ہے)، برصغیر میں شاہ ولی اللہ کا فک کل نظام کا نظریہ اور اس کے نتیجے میں سید احمد شہید کا تحریک مجاہدین، دوسری طرف عمر مختار، امام شامل، امام عبدالقادر الجزائری کی تحاریک جہاد اور جہاد افغانستان کی مثالیں اور دور حاضر میں مولانا مودودی کے حاکمانہ اسلام اور دیوبند کے نفاذ اسلام کے نظریات اور فتاوی کی شکل میں تو پہلے سے موجود رہا ہے لیکن ایسی صورت حال دیکھنے میں نہیں آئی جو طالبان کی موجودہ پر تشدد تحریک کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔اس کے برپا ہونے میں محض اس علمی سرمائے کا دخل نہیں، تاہم اس نے ان کو اخلاقی سہولت مہیا کر دی ہے جس کی وجہ سے وہ اطمینان سے خود کش حملہ کرتے ہیں اپنی جان دیتے ہیں اور دوسروں کی جان لیتے ہیں۔تاہم، جب تک آپ کی نظر جب تک ان کے سماجی اور نفسیاتی عوامل پر نہیں ہوگی آپ ان کا مسئلہ سمجھ سکیں گے نہ اس کا کوئی پائدار حل تلاش کر پائیں گے۔ 
طالبان قبائلی دور میں جی رہے ہیں۔ ہماری حکومتوں کی کوتاہی ہے کہ انھوں نے ان کو دور جدید سے آشنا نہیں کرایا، چناچہ وہ قبائلی دور کی نفسیات میں زندہ ہیں جس کا سمجھنا ہمارے لوگون کے لئے مشکل ہو گیا ہے۔ جیناتی لحاظ سے دیکھئے تو طالبان کی اکثریت پختون ہے اور یہ نسل زود طبیعت ہے۔ فوری ردعمل ان کا عمومی رویہ ہے۔ اس رویہ میں تبدیلی سماجی تبدیلیوں اور مثبت تعلیم سے ممکن تھی مگر بدقسمتی سے ان کا سماج صدیوں سے تبدیل نہیں ہوا اور تعلیم بھی انہیں وہ ملی جس نے ان میں ایسے نظریات پروان چڑھائے جن کا اوپر ذکر ہوا۔
قبائلی نفسیات شدید عدم تحفظ کی نفسیات ہوتی ہے۔ عدم تحفظ رد عمل کی نفسیات کو انگیخت کرتا ہے، رد عمل شعوری سے زیادہ جبلی ہو جاتا ہے ، مشہور نفسیات دان ایڈی تھامسن کے الفاظ میں جب سائے پر چور کا گمان ہو توحفظ ما تقدم کا تقاضا ہے کہ اس گمان پر ہی آپ سائے پر چھلانگ لگا دیں بجائے یہ کہ سایا آپ پر چھلانگ لگا دے (اگر واقعی وہ چور ہو تو)۔ عدم تحفظ کے اس احساس کے تحت وہ اپنی ثقافت سے باہر ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کی اعتماد سازی کی کوئی مربوط کوشش بھی نہیں کی گئی بلکہ ان کا اعتماد کئی بار مجروح کیا گیا واقفان حال یہ سب جانتے ہیں ۔ بہرحال، طالبان کا لڑنے مرنے کے لیے فورََا تیار ہو جانا اسی عدم تحفظ کی نفسیات کی وجہ سے ہے۔
خود شاختی انسان کی بنیادی نفسیاتی ضرورت ہے ۔ طالبان کو اپنی پہچان چاہیے تھی۔ پشتوعوامی شاعری میں اس طرح کے خیالات بھی مل جاتے ہیں جس میں شاعر اپنی قوم کو شرم دلاتے ہیں کہ پاکستان میں آج تک کوئی صدر اور وزیر اعظم ان کی قوم سے نہیں ہوا۔ حصول اقتدار کا جمہوری راستہ طویل بھی تھا اور ’جائز‘ بھی نہ تھا چناچہ نفاذ اسلام کے ایسے نظرئیے سے مدد لی گئی جو دین کی 'خدمت' بھی تھا اور حصول اقتدار کا راستہ بھی دکھاتا تھا۔
بدلے کی نفسیات قبائلی معاشرہ کی ایک اور نمایاں خصوصیت ہوتی ہے۔ مرکزی حکومت اور نظام انصاف کی عدم موجودگی سے پیدا ہونے والے عدم تحفظ کے احساس کے تحت خود حفاظتی کیانتظام کے لیے بدلے کا متبادل نظام ان کی ضرورت بن جا تا ہے۔ چناچہ یہ لوگ ہر قیمت پر اپنا بدلا لیتے ہیں ۔ گزشتہ ادوار میں جب امریکی ڈرون حملے ان پر کئے گئے تو آگے کی تمام کاروائیاں اسی بدلے کی نفسیات کے تحت عمل میں آئیں۔ بدلہ لینے کی شدت میں اسلامی قانون قصاص ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ آ پ اپنا جائزہ لے کر دیکھیں کہ اگر ہاتھا پائی کی نوبت آ جائے تو آ پ اس وقت اسلامی اخلاقیات سوچ رہے ہوتے ہیں یا اپنی ثقافت کے مطابق گالم گلوچ اور مار کٹائی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں ۔ چناچہ اگر آ پ ان قبائلیوں کے بچے ماریں گے تو یہ آپ کے بچے ماریں گے تاکہ آپ کو وہ دکھ ملے جو ان کو سہنا پڑا۔ اگر ان کی مسجد پر بم گرے گا تو وہ آ پ کو بھی مسجد میں ماریں گے۔ بدلے کی اس نفسیات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اگر آپ ان کے ساتھ احسان کر دیں یا ان سے دوستی کریں تو اسی شدت کے ساتھ آپ پر احسان کرٰیں گے اور دوستی نبھائیں گے۔ 
قبائلی تعصب بھی قبائلی معاشرے میں بقاکے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔اپنی قوم کے تحفظ کے لیے دوسروں کے نقصان کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ چناچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے جیسے ڈرون حملے بڑھتے گئے اور عام لوگ جن میں بے گناہ عورتیں ، بوڑھے اور معصوم بچے شامل تھے، مارے جانے لگے تو طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہ اس لیے کہ ان کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہوتے چلے گئے جویا تو خوداس دکھ کا شکار ہوئے یا وہ اپنی قوم کو تکلیف میں مبتلا دیکھ کر ان کا بدلہ لینے اٹھ کھڑے ہوئے۔
طالبان مسئلے کو اس وقت تک حل کرنا ممکن نہیں ہوگا جب تک ان کی نفسیات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا۔ ایک ہمہ گیر اصلاحی پروگرام کی ضرورت ہے جس میں اصلاح پسند علماء ، سماجی اور عمرانی علوم کے ماہرین ، بالغ نظر سیاست دان، علاقائی معتبر شخصیات سب مل کر اس مسئلے کے تمام پہلووں کے عملی حل پیش کریں۔ یاد رکھیں  فوجی آپریشن کے ذریعے،ہم نے اگر نفرت اور شدت کی بھڑکتی آگ کو دبا بھی لیا  تو سلگتی چنگاریاں سلگتی رہیں گی۔ اور گھر کو آگ  لگانے کے لیے ایک چنگاری بھی کافی ہوتی ہے۔
راقم
ڈاکٹر عرفان شہزاد 

فون: 03215188645

ہزارہ یونیورسٹی میں منعقدہ کانفرنس' سید احمدشہید کا تبلیغی، جہادی اور اصلاحی کردار: ایک تنقیدی جائزہ' میں شرکت احوال و تاثرات

جولائی 29 تا 31، 2015 کو ہزارہ یونیورسٹی میں سید احمد شہید کی حیات اور خدمات کا جائزہ لینے کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ مانسہرہ اور ہزارہ کو سید احمد شہید سے نسبتِ خاص ہے ۔ سید صاحب کی عظیم تحریک یہاں سے گزری اور  اپنے انمٹ نقوش ثبت کر تے ہوئے  بالاکوٹ کے میدان میں تاقیامت فروکش ہوگئی۔ اس تحریک نے مسلمانانِ  پاک وہند کو علمی اور عملی سطح پر بہت گہرائی اور گیرائی سے متاثر کیا ہے۔  اس کے اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔ بجا تھا کہ اس عظیم تحریک کے ہمہ گیر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے اہل ِ علم کا اجتماع منعقد کیا جائے اور اس کے لیے سب سے موزوں یہی تھا کہ ہزارہ یونیورسٹی  اس کا اہتمام کرے جو اس علاقے میں واقع ہے جس کو اس تحریک کی میزبانی کا شرف حاصل  ہوا  اور   یہیں اس تحریک کےاولین قائدین  کی آخری آرام گاہ  بھی ہے۔ اس کا نفرنس کا اہتمام ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہء تعلیم نے کیا تھا۔ جن کے سربراہ ڈاکٹر منظور حسین شاہ تھے۔
راقم کو  اس کانفرنس میں اپنا مقالہ پڑھنا تھا۔ روانگی کے لیے راولپنڈی اور اسلام آباد سے جانے والے محققین حضرات سے رابطہ کر کے اکٹھا سفر کرنے کا پرگرام طے پایا۔چناچہ نمل اسلام آباد سے ڈاکٹر نور حیات، ڈاکٹر فرحان راؤ، ڈاکٹر ارم سلطانہ  ؛ اسرا ء یونیورسٹی سے ڈاکٹر ریاض سعید اور راقم نے ڈائیو بس سروس سے ایبٹ آباد اور وہاں سے مانسہرہ جانا طے کیا۔ راستے میں بس خراب ہوگئی اور ایک گھنٹہ ضائع ہوا، جسے ایک ہوٹل پر چائے نوش کرتے ہوئے ہلکی پھلکی علمی  گفتگو میں گزارا۔ ایبٹ آباد سے  مانسہرہ کے لیے ڈائیو کی  شٹل سروس  مہیا ہونے میں دیر تھی،نیز عملے کا رویہ اَن پروفیشنل تھا۔ بہرحال، احباب نے اپنے طور پر گاڑی کرائے پر لی اور مانسہرہ پہنچے۔ راستے میں زیادہ  تر  ایک دوسرے کے مقالات  کے نکات اور سید صاحب کی تحریک کے مختلف پہلو اور تاریخی معلومات کا تبادلہ ہوتا رہا۔  مانسہرہ میں لاہور سے آئی ڈاکٹر زاہدہ سلمان اور فیصل آباد یونیورسٹی سے ڈاکٹر ڑضوان بھی ہمرکاب ہوگئے۔ ۔  یہاں سے ہزارہ یونیورسٹی کا  عملہ ہمیں آرمی  میس لے آیا جہاں کے مہمان خانے ہمارے لیے کرائے پر حاصل کئے گئے تھے۔یہاں ہماری رہائش کا معقول انتظام تھا۔ تاہم شرکا ء کی خواہش تھی کہ رہایش اگر شہر یا یونیورسٹی کے اندر ہوتی  تو زیادہ آزادی سے گھومنے پھرنے کا لطف آتا۔ تاہم یہ جگہ بھی پرفضا تھی۔ مگر بقول شاعر:
صیاد نے قفس میں سجائے ہیں چند پھول
اور ہم کو حکم ہے کہ اسے آشیاں کہیں
اگلے دن ناشتہ کے فورًا بعد ہمیں یونیورسٹی پہنچایا گیا۔ رجسٹریشن کروائی گئی ۔  چند ساتھیوں کو اعتراض تھا کہ رجسٹریشن فیس نہیں ہونی چاہیے تھی۔ بہرحال، ہم نے  فیس ادا کی اور کانفرنس میں جابیٹھے۔  امریکہ سے تشریف لائےپرفیسر ڈاکٹر عدیل صاحب  شستہ انگریزی میں خطاب فرما رہے تھے۔ انہوں نے عالمی تناظر میں رواداری اور روشن خیالی کے موضوع پر اچھی گفتگو کی۔ ان کا خطاب کافی خطیبانہ تھا۔ حاضرین تالیوں سے داد د دیتے رہے۔ ان کے بعد ایک آدھ مقالہ پڑھا گیا جو کوئی تاثر نہ چھوڑ سکا۔
چائے کے وقفے کے بعدمقالہ نگار شرکا ء کو ایجوکیشن بلاک لے جایا گیا اور انہیں  مختلف کمروں میں بٹھا دیا گیا  جو ان کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ ہر کمرے میں ملٹی میڈیا فراہم کیا گیا تھا ۔ہر کمرے میں  سامعین کی  اچھی خاصی تعداد  تھی۔ مقالہ نگار اپنا مقالہ پیش کرتے اور سامعین اس کے بعد سوالات کرتے۔ مجھے یہ طریقہ بہت پسند آیا۔ اس طرح سامعین محض سامعین نہیں ہوتے بلکہ شریکِ بحث ہوجاتے ہیں ۔ وہ زیادہ دلچسپی سے سنتے ہیں کیونکہ ان کو بھی اپنے جوابی خیالات کے اظہار کا موقع ملتا ہے ۔ جن کانفرنسوں میں  سامعین کو صرف سننا ہوتا ہے ، وہاں معاملہ یک طرفہ ہونے کی وجہ سے بے جان اور پھیکا ہوجاتا ہے۔ یک طرفہ معاملہ کوئی بھی ہو زیادہ دیر اپنی دلچسپی قائم نہیں رکھ سکتا۔  سوال و جواب سے مقالہ نگار کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ اپنی بات کے ابلاغ میں کتنا کامیاب رہے ۔ اور یہ کہ آپ کتنے پانی میں ہیں۔ اپنے مقالے کی قدرقیمت پرکھنے کا موقع مل جاتا ہے نیز اضافی نکات اور خیالات بھی حاصل ہوتے ہیں۔
علمی کانفرنسوں میں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ  مقررین  اپنے مقالات کو مقررہ وقت میں ختم نہیں کر پاتے ۔  وہ اپنے مقررہ وقت سےزیادہ وقت لے لیتے ہیں جس سے دیگر مقررین کی حق تلفی ہو جاتی ہے مزید یہ کہ سامعین بھی بیس منٹ کے بعد تقریر میں دلچسپی کھونے لگتے ہیں ۔ اس  کانفرنس  میں بھی  یہی مشاہدہ  ہوا کہ  اکثر مقررین بلا ضرورت  سید احمد شہید کی داستان اول تا آخر بیان کرنے لگتے  جو سامعین کو اب ازبر ہو چکی تھی، لیکن  جب اپنی مقالے کے مرکزی موضوعات کی طرف آتے تو ان کے پاس وقت کی کمی ہو جاتی ۔ان  باتوں کو  پیشِ نظر رکھتے ہوئے راقم  پاور پواینٹ پرزینٹیشن تیار کی تھی اور اس کی مشق بھی کی تھی کہ پندرہ منٹ میں یہ مکمل  پیش کیا جا سکے۔ مقالہ انگریزی میں تھا اور پریزنٹیشن بھی انگریزی میں تھی۔ راقم کے مقالے کا عنوان تھا :
'An Analysis of the Effects and Implications of Sayyad Amad Shahīd’s Movement of Jihād for the Revival of the Political Islām: A Continuous Struggle in its Different Forms'
میں نے سید صاحب کی داستان دہرائے بغیر یہ بتانے کی کوشش کی کہ سید صاحب کی تحریک کا نظریاتی اور  حکمتِ عملی کا  جامع تجزیہ کرنے کی آج بھی ضرورت ہے، کیونک آج بھی  یہ تحریک سیاسی دینی تحریکات کے لیے، خصوصًا برّصغیر میں، سب سے بڑے محرک کی حیثیت رکھتی ہے۔  میں عرض کیا کہ سید صاحب کی تحریک  شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل کے نظریات سے مولود ہوئی۔ برصغیر کے بعد پوری دنیا میں غلبہ ء اسلام اس کا مطمح ِ نظر تھا ۔ پنجاب   میں سکھوں کے ظلم وستم  کا استیصال اس کا اولین ہدف تھا ۔یہ  تحریک مسلح جدوجہد سے شروع ہوئی، بالاکوٹ میں سید صاحب  اور آپ کے قریبی احباب  کی شھادت کے بعد بھی کافی عرصہ  مسلح جدوجہد جاری رہی۔  1857 کے بعد یہ تعلیمی جدوجہد میں تبدیل ہوئی اور مدرسہ دارالعلوم دیوبند، سہارنپور، ندوۃ العلماء ، اہلِ حدیث کے مدارس وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہوئی  جو اپنے طلباء میں جہاد کی آبیاری کرتے رہے۔  کانگریس کے قیام کے بعد یہ تحریک سیاسی جدوجہد میں تبدیل ہوئی۔ پہلے جمیعت علمائے ہند اور پھر جمیعت علمائے اسلام کی صورت میں اس تحریک کے لواحقین  دو الگ راستوں کے راہی بنے۔ جمیعت علمائے ہند نے، ہندوستان کے نئے  سیاسی منظر نامے کے  معروضی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے  ،  مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے  نظریے  سے دستبردار ہو کر مشترکہ  قومیت اور جمہوریت کے اندر سیکولر ازم کے ذریعے مذہبی آزادی کے خیالات  کو اپنا لیا ۔ لیکن جمیعت علمائے اسلام ،سید صاحب کے نظریے سے  زیادہ قریب رہی۔ اس نے مسلم لیگ کے  الگ وطن کی جدوجہد میں اسلامی سلطنت کا خواب پھر سے استوار ہوتے دیکھا تو اس میں شامل ہوگئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد، حکومتوں کے اسلام نافذ کرنے سے گریز کی روش کی وجہ سے  یہ تحریک آئینی جدجہد میں  تبدیل ہو گئی۔ پھر یہ بتدریج جارحانہ ہوتی چلی گئی۔ تحریکِ نفاذِ نظامِ مصطفی   سے یہ احتجاج میں تبدیل ہوئی اور تحریک نفاذِ شریعت اور طالبان  کی صورت میں پھر سے مسلح ہوگئی۔ یوں دیکھئے تو سید صاحب کی تحریک تاریخ کا چکر کاٹ کر پھر اسی نقطہ پر کھڑی ہوگئی جہاں سے چلی تھی۔
راقم نے اپنا تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سید صاحب کی تحریک کی بنیاد حکومتِ الہیہ کے قیام،  نجی جہاد، امامت اور  شاہ عبد العزیز کے دارالحرب  کے فتوی پر تھی ۔ عرض کیا کہ  مسلمانوں کے لیے حالتِ اقتدار میں نفاذِ شریعت فرض ہے لیکن نفاذِ شریعت کے لیے حصولِ ریاست فرض یا واجب نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے صاحبِ مال کے لیے ادائیگیِ زکوۃ فرض ہے لیکن ادائیگیِ زکوۃ کے لیے کسبِ مال فرض یا واجب نہیں ۔نیزنجی جہاد کا کوئی تصور اسلام میں نہیں۔ جہاد امامت اور ریاست کے تحت ہی کیا جاسکتا ہے۔ جہاد کی اجازت اور احکامات ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل کیے گئے ہیں اس لیے جہاد و قتال سے متعلق تمام آیات کو ریاستِ مدینہ کے قیام کے بعد کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ مزید عرض کیا کہ حکومت کی کوتاہی سے اگر حدود کا نفاذ نجی شعبہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تو جہاد کو کیوں کر نجی شعبہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔   دارالحرب کے فتوی کے ضمن میں عرض کیا کہ کسی  جگہ کا  دارالحرب قرار پا جانے کے بعد  پہلا تقاضا ہجرت  ہوتاہے ،  لیکن ہمیں اس وقت کے ہند کے مسلمانوں یا کم از کم پنجاب کے مسلمانوں سے اس کا  مطالبہ نظر نہیں آتا۔ لاکھوں مسلمانوں میں سے زیادہ سے زیادہ پندرہ سو مسلمانوں نے سید صاحب کے ساتھ ہجرت کی تھی جو کہ انتہائی ناکافی تعداد ہے۔
 سید صاحب کے طریقہ کار میں نوٹ کیا گیا کہ آپ نے جہاد پہلے شروع کیا  (اکوڑہ کا شب خون)، بیعتِ امامت بعد میں لی (جب دیکھا کہ مقامی مجاہدین جنگ کی بجائے مالِ غنیمت کے کر چلتے بنے اور اس کی شرعی تقسیم پر آمادہ نہ ہوئے)، اس کے بعد ریاست کے حصول کی کوشش کی  اور اس کے بعد لوگوں پر شریعت کا نفاذ  کرنے کی کوشش کی جو اس کے لیے تیار نہ تھے۔ یہ ترتیب رسول ﷺ کی سنت کے بالکل برعکس ہے۔ آپؐ  کو مدینہ کے لوگوں نے اپنا امام پہلے تسلیم کیا، پھر خود سے ریاست مہیا کردی، آپؐ نے  ان کی مرضی سےان پر شریعت  نافذ کی ، اور  جہاد سب سے آخر میں کیا گیا۔ اس کے علاوہ  سید صاحب نے دشمن کے مقابلے میں عددی  قوت کےفرق کو نظر انداز کیا۔آپ کے پاس قابلِ بھروسہ جنگجوؤں کی تعداد 1500 سے زیادہ نہ تھی، جو پوری طرح مسلح بھی نہ تھے اور بنیادی ضروریات کی تکمیل  سے بھی تہی تھے ۔ جب کہ سکھوں کی صرف سرحدی فوج  8000 سے 10،000 تک تھی۔   راقم نے عرض کیا کہ سید صاحب کی اس  پراثر تحریک کا درست تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مستقبل کے اولوالعزم مسلمان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اسلام کی خدمت میں بہتر طور پر استعمال کیا  جا سکے۔
سامعین کے لیے میری یہ تنقید غیر متوقع تھی۔ پریزنٹیشن کے بعد سوالات کی گویا بوچھاڑ ہو گئی۔  جن کے جوابات دیئے گئے۔  ایک سوال یہ کیا گیا کہ کشمیر ، فلسطین اور برما وغیرہ میں جو ظلم ہو رہا ہے اس پر ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ عرض کیا کہ قرآن نے اس کی رہنمائی وضاحت سے کی ہے۔ اگر ظلم غیر مسلم ریاست کی طرف سے ہو رہا ہو تو  ایک مسلم ریاست اس کے سد باب کے لیے اپنے وسائل اختیار کرے گی اور یہ اس پر فرض ہے۔ لیکن اگر وہ اس غیر مسلم ریاست کے ساتھ معاہدہ کی حالت میں ہے تو اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد بھی نہیں کر سکتی سوائے اس کہ کہ معاہدہ علی الاعلان ختم کر دے۔ ایک صاحب نے کہا کہ "الحرب خدعۃ' کہ جنگ تو دھوکا ہے ،تو اگرمعاہدہ امن کے ہوتے ، اندونِ خانہ  اپنے مظلوم مسلمان ک بھائیوں کی مدد کرنا  جائز ہے۔ اس پر عرض کیا کہ 'الحرب خدعۃ (جنگ دھوکا  ہے)ہے نہ کہ الامن خدعۃ (امن دھوکا ہے)۔ اسلام میں معاہدہ کی پاسداری کو فوقیت حاصل ہے۔ آپ نے مدد کرنی ہے تو معاہدہء امن علی الاعلان ختم کرنا ہوگا۔ دنیا مسلمانوں کو دھوکے باز نہ سمجھے یہ زیادہ اہم ہے۔ میرے ہم سفر ڈاکٹر ریاض سعید نے سوال کیا کہ قرآن کی آیت،'مالکم لاتقاتلون۔۔۔ تو ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم  اپنے طور پر جائیں اور اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کریں۔ اس پر عرض کیا کہ یہ آیت ریاستِ مدینہ سے مخاطب ہے۔ اور آج بھی اس کا مخاطب ریاست ہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مظلومیت تو دورِ مکی میں بھی تھی لیکن مظلوموں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم نہیں آیا۔ اس کے بجائے ہجرتِ حبشہ کا حکم دیا گیا قتال کا نہیں  ۔ قتال کا حکم تب ہی آیاجب تک کہ مدینہ میں ریاست حاصل نہ کر لی گئی۔ ایک پرفیسر صاحب نے سوال کیا کہ مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے بارے میری کیا رائے ہے وہ بھی تو کچھ جنگجوؤں کے ساتھ آیا اور سلطنت قائم کر لی۔ عرض کیا ہے بابر نے جو کیا اسلام کے نام پر نہیں کیا۔ اپنے سیاسی مفادات کے تحت کیا۔ جب کہ سید صاحب نے جو کیا اسلام کے نام پر کیا۔ تو جو اسلام کا نام لے تو اس کے کام کو جانچنے کا معیار مختلف ہو جاتا ہے۔   ایک طالبہ نے سوال کیا کہ کیا سید صاحب کو فریڈم فائٹر نہ سمجھا جائے۔ عرض کیا کہ آزادی کی جنگ تو انہوں نے لڑی لیکن اسلامی نقطہ نظر سے اس میں سقم ہیں۔
سوالات کا سلسلہ تھم نہین رہا تھا کہ چیرمین  صاحب نےچائے کے وقفے کا اعلان کر دیا جس سے امید ہوئی کہ ماحول کی حرارت چائے کی حرارت سے کچھ زائل ہو جائے گی۔ چائے کے وقفے کے دوران بھی میرے  مقالے پر سوالات اور تبصروں کا سلسلہ جاری رہا۔  تاہم مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ نہ صرف میرے نکاتِ اعتراض کا تحمل کیا گیا بلکہ بہت سے افراد نے اس کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ سوات سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے جو جمیعت علمائے اسلام سے وابستہ تھے مجھے طالبان کے بارے میں اپنے ذاتی حالات سناتے رہے جو رونگٹے کھڑے کرنےکے لیے کافی تھے۔میرے بعد آنے والے مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے کے ساتھ ساتھ میرے مقالے پر اپنا تبصرہ کرنا بھی ضروری سمجھا۔  
اگلے مقالہ نگار میرے ساتھی ڈاکٹر ریاض سعید تھے۔ انہوں نے مختلف تاریخی شواہد سے سید صاحب کی تحریک کے افراد کا تحریکِ پاکستان کے ساتھ براہِ راست تعلق ثابت کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سید صاحب کی تحریک کی بدولت دو قومی نطریہ واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔ کے پی کے کے ریفرنڈم میں اس تحریک لوگوں نے مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔
اگلے دن مرکزی اجلاس میں مہمانانِ خصوصی نے  جو مقالہ جات پڑھے گئے وہ  بھی تحقیقی کم اور تبصراتی اور جذباتی  زیادہ تھے۔ تاہم،  کراچی سے تشریف لائی ہوئی محترمہ  پروفیسرڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ کا مقالہ خالص تحقیقی مقالہ تھا۔ انہوں نے سید صاحب کی تحریک کا سماجی اور سیاسی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ اور ہندوستان کی آزادی اور مسلمانوں میں شعور کی بیداری میں ان کی خدمات کو سراہا تھا۔ اسی مرکزی اجلاس میں مہمان مقرر، مفتی کفایت اللہ صاحب نے ایک نہایت اہم کلیہ ارشاد فرمایافرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو قوت و کمزوری کے لحاظ سے تین حالتیں درپیش ہوئیں. پہلی جب آپ کمزور تهے اور دشمن طاقتور، دوسری جب آپ اور آپ کے دشمن طاقت میں تقریبا برابر سرابر تهے اور تیسری جب آپ غالب اور دشن مغلوب تها. تینوں حالتوں کی سنت مختلف ہے۔ ہم مسلمانوں سے غلطی یہ ہوجاتی ہے کہ ہم ایک حالت میں ہوتے ہوئے دوسری حالت کی سنت اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کمزوری کی حالت میں برابری یا غالب حالت کی سنت اپنانے سے مسلمانوں نے اسلام کو بهی نقصان پہنچایا ہے اور خود کو بهی۔ یوں وہ ایسے گهن چکر میں پھنس گئے ہیں کہ نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
اس کے بعد ہمیں اسی طرح مختلف کمروں میں بھیج دیا گیا۔  راقم جس کمرے میں تھا وہاں ایک مقالہ نگار (نام فراموش ہوگیا) نے سید صاحب کی تحریک کے شاعری پر اثرات پر اپنامقالہ پیش گیا۔ تاہم مقالہ مطالعہ کی کمی کا مظہر تھا جس پر اہل ِ علم سامعین نے ان کی توجہ دلائی۔  جسے انہوں نے خندہ جبینی سے تسلیم کیا۔ اس کے بعد دو نوجوان سکالرز نے محفل کو اپنا حصار میں لیے رکھا۔  ان میں سے پہلے آنے والے  شعبہ بین الاقوامی تعلقات ہزارہ یونیورسٹی کے ڈاکٹر عادل سیماب نے  یہ تھیسزپیش کیا کہ وہابی تحریک، سید صاحب کی تحریکِ مجاہدین، فرائضی تحریک، اور اب موجودہ تحریکِ طالبان میں ایک چیز مشترک ہے کہ ان تمام تحاریک نے استعمار کو مضبوط کرنے اور سامراجیت کے اہداف حاصل کرنے میں  اپنی قوت صرف کی۔ وہابی تحریک نے خلافتِ عثمانیہ کو کمزور کیا، سید صاحب کی تحریک نے انگریزوں کے حریف سکھوں سے لڑائی کی، فرائضی تحریک نے ہندو جاگیرداروں کے خلاف حکومتِ انگلیشیہ کو مضبوط کیا۔  اور طالبان نے پہلے روس کو توڑ کر امریکہ کو تقویت پہنچائی اور اب افواجِ پاکستان کے خلاف لڑ کر امریکی ایجنڈا ہی پورا کر رہے ہیں ۔ حاضرین نے مقالہ نگار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم  ڈاکٹر عادل تحمل آمیز مسکراہٹ کے ساتھ حاضرین کو جواب دیتے رہے۔  ان پر ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ آپ آج کے دور میں رہ کر اس وقت کے حالات کا تجزیہ کیسے کر سکتے ہیں ۔ راقم کے نزدیک یہ اعتراض نا مناسب تھا ۔ اگر اس تحریک کی تحسین کرنے پر یہ اعتراض نہیں کیا جاتا تو تنقید کرنے پر بھی یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ نیز کسی بھی واقعے کا تجزیہ اس کے گزرنے کے بعد ہی کیا جانا ممکن ہے۔  ڈاکٹر عادل نے اس کا یہ جواب دیا کہ انہوں نے یہ تجزیہ اس وقت کے بین الاقوامی حالات کے تناظر میں کیا گیا ہے آج کے حالات کے تناظر میں نہیں کیا۔ اس لیے یہ سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ ایک چبھتا ہوا سوال یہ کیا گیا کہ آپ ان تحاریک کا تعلق استعمار کے ساتھ ثابت کیجیئے یا اپنی بات سے دستبردار ہو جایئں۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ یہ اعتراض درست نہیں۔  تحقیق کا ایک انداز یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی مظہر کو اس کے اثرات کی روشنی میں پرکھا جائے۔ اور محقق نے یہی کیا ہے۔ اس کےلیے ضروری نہیں کہ وہ ان خفیہ روابط کا سراغ بھی لگائے جو ان تحاریک اور استعماری طاقتوں کے مابین ہو سکتے تھے۔ نیز مقالہ نگار نے کسی خفیہ رابطے کا الزام بھی نہیں لگایا تھا بلکہ صرف یہ کہا تھا ان تحاریک سے استعمار کو بہرحال فائدہ ہوا ہے۔ منتظمین نے سوالات کی کثرت کے پیشِ نظر سوالات کے سلسلہ کو منقطع کر کے اگلے مقالہ نگا ر کو موقع دیا۔
یہ بھی ایک نوجوان ریسرچ سکالر محمد حنیف  تھے۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سید صاحب کا مقصد بیرونی تسلط سے ہندوستان کی آزادی تھی جس کے بعد وہ اقتدار کو ہندوستانیوں کو بلا امتیاز دین و ملت سونپ دینا چاہتے تھے۔ وہ شاہ ولی اللہ کےفک کل نظام کو عملی جامہ پہنانے نکلے تھے۔ اس فکر کے اصل وارث متحدہ قومیت کے علمبردار، مولانا عبید اللہ سندھی جمیعت علماء ہند تھے۔ جمیعت علماء اسلام اس فکر سے منحرف ہوئی۔ اس مقالہ نگار    پر بھی تابڑ توڑ سوالات کیے گئے۔ ایک سوال میں نے یہ کیا  جیسا کہ محقق نے تسلیم کیا تھا کہ سید صاحب شاہ ولی اللہ کے نظریات سے متاثر تھے تو شاہ ولی اللہ تو کسر شوکت الکفر کے قائل ہیں  (جس کا حوالہ جات راقم نے اپنے مقالے میں بھی دیے ہیں) اس کے مطابق شاہ ولی اللہ،  خدا کی زمین پر کفر کی حکومت  کاقائم ہونا اور رہنا جائز نہیں  سمجھتے۔ وہ غیر مسلموں کے لیےبرسرِ اقتدار ہونا اسی صورت میں جائز  سمجھتے  س ہیں جب کہ  وہ مسلمانوں کی تابعداری میں ہو۔ اس لحاظ سے  سید صاحب کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ہندوستانیوں کوبلا امتیاز اقتدار سونپنے کا ارادہ رکھتے تھے  ،درست نہیں ہو سکتا،  یہ بات سید صاحب کے بعض خطوط کے بھی خلاف ہے جس میں انہوں نے ہندوستان کی سر زمین سے کفر وشرک کے خاتمے کو اپنا مقصد بتایا تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو شاہ ولی اللہ کے مطابق ہندوستان میں بلکہ ساری دنیا میں مسلمان اور غیر مسلم کا تعلق  برابری کا نہیں ، بلکہ متحارب  اورحاکم اور محکوم کا بنتا ہے۔ اس پر مقالہ نگار نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ جس پر میں نے انہیں حجۃ اللہ البالغہ سے رجوع کا مشورہ دیا۔ ایک اور سوال میرے ساتھی ڈاکٹر ریاض سعید، جن کا مقالہ  موجودہ مقالہ کا مکمل عکس (antithesis  (تھا، نے یہ کیا کہ  سید صاحب کی تحریک  کے نتیجے میں بھارت آزاد ہوا یا پاکستان بنا۔ اس سوال کا جواب محقق نےذرا مبہم انداز میں دیا۔ آخر وہ پاکستان میں بیٹھ کر  پاکستانیوں کی 'مثالی رواداری 'کے اعصاب  کو اور کتنا آزماتے۔
ان مقالات کے اختتام پر ہمیں واپس مرکزی ہال میں لے جایا گیا جہاں شرکاء کو اعزازی شیلڈز دی گیئں۔ اختتامی خطابات ہوئے۔  منتظمِ اعلی ڈاکٹر منظور حسین نے بتایا کہ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے دن رات کس انتھک محنت سے اس بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا ۔ شرکاء نے ان  اس کامیاب کانفرنس کا نعقاد پر مبارکباد  پیش کی۔
کانفرنس میں  مجھےایک بار پھر یہ  احساس ہوا کہ ہمارے ہاں  عام طور پرتحقیقی مزاج  کی کمی ہے۔ کانفرنس میں بھی اکثر مقالات تحقیقی کم اور قصیدے کی زبان میں لکھے ہوئے خطبے زیادہ محسوس ہوئے۔ معذرت کے ساتھ ، مگر مجھے یہ محسوس ہوا کہ اس مزاج کی تشکیل اور ترسیل میں ہمارے بزرگ اساتذہ کا دخل ہے جو خود غیر جذباتی تحقق کی بنیادیں تعمیر کرسکے نہ اس اگلی نسل میں اس کی تشکیل کر سکے۔ تاہم کچھ نوجوان سکالرز نے کسی حد تک اس کمی کا ازالہ کیا ۔
 ہمارے گروپ میں مختلف مسالک کے علماء اکھٹا ہوگئے تھے۔  ہم جب جماعت کراتے تو کبھی  کوئی اہلِ حدیث  صاحب امامت کراتے تو کبھی کوئی حنفی۔  یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ  اہلِ حدیث صاحب کی امامت میں حنفی  مقتدی نےنے اکہری اقامت کہی  اور رفع یدین بھی کیا۔

اس کے بعد اگلے دن کا پروگرام بالاکوٹ ،ناران اور کاغان وغیرہ کی سیر کا تھا لیکن مجھے  اپنے چنو منو  (ب میرے بچے)یاد آرہے تھے ۔بہت عرصے بعد ان سے دو دن  کے لیئے دور ہوا تھا ۔  سو میں نے مزید قیام سے معذرت کی ۔ ڈاکٹر منظور حسین  کے حکم پر خصوصی گاڑی کے ذریعے راقم اور ڈاکٹر فرحان راؤ کو مانسہرہ تک چھوڑا گیا۔   وہاں سے ہم نے  واپس پنڈی کی راہ لی۔  
ڈاکٹر عرفان شہزاد۔ راولپنڈی
irfanshehzad76@gmail.com

Thursday 13 August 2015

غصبِ خلافت کا ابطال قرآن کی روشنی میں


خلافت راشدہ کے بارے میں میرے نظریے کی بنیاد درج ذیل اصول ہے  جو قرآن کی واضح آیات سے متبادر ہے۔  اس اصول یا قانونِ خداوندی کے دو  حصے ہیں:
الف)      رسول کے مخالفین ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں۔ نہ صرف ناکام بلکہ ذلیل بھی ہوتے ہیں۔
قُلْ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ ٱلْمِهَادُ(3:12)
ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا ہے یہ کہہ دو کہ تم مغلوب ہوگے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ کیا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔(8:36)
إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّواْ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوۤاْ إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ
جن لوگوں نے کفر کا یہ رویہ اختیار کر رکھا ہے، وہ اپنے مال خدا کی راہ سے روکنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں۔ وہ آگے بھی خرچ کرتے رہیں گے، پھر یہ اُن کے لیے حسرت بن جائے گا، پھر مغلوب ہوں گے اور سب منکروں کو جمع کرکے جہنم کی طرف ہانک دیا جائے گا
ب)         رسول اور اس کے حامی لازما اس دنیا میں نہ صرف کامیاب ہوتے ہیں بلکہ غلبہ پاتے ہیں۔
كَتَبَ ٱللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَاْ وَرُسُلِيۤ إِنَّ ٱللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ(58:21)
اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔
 اور یہ سب اس دنیا میں سب کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے تاکہ خدا کی طرف سے دلیل بن سکے ۔ اس دلیل کو خدا بار بار ان لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے جو موجودہ رسول کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر نیا رسول گزشتہ رسول کے غلبے اور اس کے مخالفین کی شکست اور ذلالت کو دلیل بنا کر اپنی قوم کے سامنے پیش کرتا ہے۔  مثلا:
وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شِقَاقِي أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ(11:89)
"(شعیب نے کہا) ور اے میری قوم کہیں میری ضد تمہارے لیے اس امر کا باعث نہ بن جائے کہ تم پر بھی اسی طرح کی آفت نازل ہو جس طرح کی آفت قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح پر نازل ہوئی اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور بھی نہیں"۔
سورہ قمر میں یہ بتا کر کہ تمام انبیا ء کے مخالفین کو اسی دنیا میں سزا دی گئی اور ان کو رسوا کیا گیا،اللہ تعالی  رسول اللہ کے منکرین کے بارے میں فرماتا ہے:
أَكُفَّارُ‌كُمْ خَيْرٌ‌ مِّنْ أُولَـٰئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَ‌اءَةٌ فِي الزُّبُرِ‌ (54:43)
"(پھر) تمھارے یہ منکر کیا اُن (کفار)سے کچھ بہتر ہیں یا صحیفوں میں تمھارے لیے کوئی معافی لکھی ہوئی ہے؟"
تو  ضروری  تھا کہ حضرت محمد ﷺ کے تمام  مخالفین بھی نہ صرف ناکام ہوتے بلکہ ذلیل بھی  ہوتے۔ اور وہ ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کے تین مخالفین تھے:
1.       مشرکین
2.       اہل کتاب
3.       منافقین
 اس  قانون خداوندی کے مطابق ان سب کا قلع قمع ہونا اور ذلیل و رسوا ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ  مشرکین کو حجۃ الوداع کے بعد 4 ماہ کی مہلت دینے کے بعد ان سے اعلان جنگ کر دیا گیا۔
بَرَ‌اءَةٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ فَسِيحُوا فِي الْأَرْ‌ضِ أَرْ‌بَعَةَ أَشْهُرٍ‌ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ وَأَنَّ اللَّـهَ مُخْزِي الْكَافِرِ‌ينَ وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ‌ أَنَّ اللَّـهَ بَرِ‌يءٌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ وَرَ‌سُولُهُ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ وَبَشِّرِ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُ‌وا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ‌ الْحُرُ‌مُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِ‌كِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُ‌وهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْ‌صَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ (9:1-5)
اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکوں کے لیے اعلان براء ت ہے جن سے تم نے معاہدے کیے تھے سو (اے مشرکین عرب)، اب ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور یہ بھی کہ اللہ (اپنے پیغمبر کا) انکار کرنے والوں کو رسوا کر کے رہے گا (پھر حج کا موقع آئے تو اِس سرزمین کے) سب لوگوں تک پہنچانے کے لیے بڑے حج کے دن اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اعلان عام کر دیاجائے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسول بھی۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمھارے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیرو گے تو جان لو کہ تم اللہ سے بھاگ نہیں سکتے۔ (اے پیغمبر)، اِن منکروں کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو وہ مشرکین، البتہ (اِس اعلان براء ت سے) مستثنیٰ ہیں جن سے تم نے معاہدہ کیا، پھر اُس کو پورا کرنے میں اُنھوں نے تمھارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی ہے۔ سو اُن کا معاہدہ اُن کی مدت تک پورا کرو، اِس لیے کہ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو (بد عہدی سے) بچنے والے ہوں (بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور (اِس مقصد کے لیے) اِن کو پکڑو، اِن کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھو۔پھراگر یہ توبہ کر لیں اور نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔ یقیناًاللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
نیز فرمایا:
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ‌ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُون(12-11-:9)
"سو اگر توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو تمھارے دینی بھائی ہیں۔ ہم اُن لوگوں کے لیے اپنی آیتوں کی تفصیل کیے دے رہے ہیں جو جاننا چاہتے ہوں۔ور اُس عہد کے بعد بھی جو اُنھوں نے کر رکھا ہے، اگر وہ اپنے قول و قرار توڑ ڈالیں اور تمھارے دین میں عیب لگائیں تو کفر کے اِن سرخیلوں سے بھی لڑو۔ اِن کے قول و قرار کچھ نہیں، (اِس لیے آج نہیں تو کل اپنا عہد توڑ دیں گے، لہٰذا لڑو) تا کہ یہ (اِس کفر و شرک سے) باز آ جائیں۔"
قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْ‌كُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ‌ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ (9:14)
اُن سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے اُن کو سزا دے گا اور اُنھیں ذلیل و خوار کرے گا اور تمھیں اُن پر غلبہ عطا فرمائے گا اور مومنوں کے ایک گروہ کے کلیجے (اِس سے) ٹھنڈے کرے گا۔
پھر کچھ قتل ہوئے اور باقیوں نے اسلام قبول کر لیا۔
  یہود اور نصاری کو عرب میں ذلت کے ساتھ رہنے کی اجازت کے دی گئ:
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَلَا يُحَرِّ‌مُونَ مَا حَرَّ‌مَ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُ‌ونَ (9:29)
)اِن مشرکوں کے علاوہ) اُن اہل کتاب سے بھی لڑو جو نہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اُس کے رسول کے حرام ٹھیرائے ہوئے کو حرام ٹھیراتے ہیں اور نہ دین حق کو اپنا دین بناتے ہیں، (اُن سے لڑو)، یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور ماتحت بن کر رہیں۔
رہ گے  منافقین تو ان  کو بھی ان کے انجام تک پہنچا دیا گیا ۔ تاکہ کوئی  ابہام نہ رہے اور خدا کا وعدہ کامل طریقے سے پورا ہو۔:
يَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ‌ وَكَفَرُ‌وا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرً‌ا لَّهُمْ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ‌(9:74)
یہ خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ اِنھوں نے وہ بات نہیں کہی، حالاں کہ کفر کی وہ بات اِنھوں نے ضرور کہی ہے اور (اِس طرح) اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے ہیں اور اِنھوں نے وہ چاہا ہے جو پا نہیں سکے ہیں۔ اِن کا یہ عناد اِسی بات کا صلہ ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول نے اپنے فضل سے اِن کو غنی کر دیا ہے(مال غنیمت سے حصہ دے کر)۔ سو اگر یہ( اب بھی) توبہ کر لیں تو اِن کے لیے بہتر ہے اور اگر اعراض کریں گے تو اللہ اِن کو دردناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور زمین میں اِن کا نہ کوئی حمایتی ہو گا، نہ مددگار۔
"دنیا میں بھی " کا اصول قابل توجہ ہے۔ یہ ذلت انہیں اس دنیا میں ضرور ملتی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے تمام مخالفین کو ملی۔
اس کے مقابل رسولوں کے غلبے کا وعدہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے پیرو کاروں کے حق میں پورا ہوا۔  اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ:
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْ‌تَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِ‌كُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ‌ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ(24:55)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل صالح کیے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک میں اقتدار بخشے گا جیسا کہ ان لوگوں کو اقتدار بخشا جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جس کو ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرایا اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو درحقیقت وہی لوگ نافرمان ہیں۔
" تم میں سے " کے الفاظ قابل غور ہیں۔ یہ' تم' گروہِ صحابہ تھا، نیز کسی خاص شخص کی تشخیص نہیں کی گئی۔ اب ان میں سے جن کو اقتدار ملا ان کو خدا کے اسی قانون کے تحت ملا کہ رسول اور ان کے پیروکار لازما غلبہ پاتے ہیں۔ اور اس کے لیے ایمان اور عمل صالح شرط تھا۔ جیسا کہ آیت میں کہا  گیا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کے پیروکاروں میں سے جس کو بھی اقتدار ملا وہ انہیں اس وعدہء الہی کے تحت ہی ملا۔ اس میں کسی کسی کافر، منافق ،   کاذب یا غاصب کے غلبے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ میں خلفاء راشدین  کی خلافت اس اصول کے تناظر میں دیکھتا ہوں۔
و ماعلینا الا البلاغ
ہمارے ذمے تو بس واضح طور پر بیان کرنا ہے۔