Tuesday 18 August 2015

سید احمد شہید کی تحریکِ جہاد: ایک مطالعہ

سید احمد شہید کی تحریک جہاد عملی طور پر 1826سے شروع ہوئی اور 1831 میں آپ کی شہادت پر اختتام پذیر ہوئی۔ تاہم  غیر منظم طور پر یہ 1857 کے بعد بھی مسلح جہاد کی صورت میں چلتی رہی۔ اس تحریک نے اور بھی بہت سے تحاریکِ جہاد کو جنم دیا، جو اسی انجام کو پہنچی جو اس تحریک کو پیش آیا، مثلاً  بنگا ل میں تیتو میر کی تحریک، تحریک ریشمی رومال اور صادق پور  پٹنہ کا مرکزِ جہاد، جہادِ شاملی وغیرہ۔
دورِ حاضر میں ابو الحسن ندوی، مولانا غلام رسول مہر وغیرہ کی تحقیقات اور تصنیفات نے اس تحریک کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔ خصوصاً  ابو الحسن ندوی کی سیرتِ سید احمد شہید پڑھ کر ایک عام قاری کا یہ تاثر ہوتا ہے کہ اگر کوئی دین کی حقیقی خدمت کرنا چاہتا ہے تو یا تو خود  کوئی تحریکِ جہاد اٹھا دے  اگر اس قابل ہے یا  پہلے سے موجود کسی جہادی تنظیم کا حصہ بن کر اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اپنی جان دے کر سرخرو ہو جائے۔ یہ کتب طالبان جیسی تحریکوں کو مسلسل افرادی قوت مہیا کرنے کا مستقل ذریعہ ہیں۔  
سید صاحب کی تحریک کا نظریاتی اور  حکمتِ عملی کا  جامع تجزیہ کرنے کی آج بھی ضرورت ہے، کیونک آج بھی  یہ تحریک سیاسی دینی تحریکات کے لیے، خصوصًا برّصغیر میں، سب سے بڑے محرک کی حیثیت رکھتی ہے۔  سید صاحب کی تحریک  شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد العزیز کے نظریات سے مولود ہوئی۔ برصغیر کے بعد پوری دنیا میں غلبہ ء اسلام اس کا مطمح ِ نظر تھا ۔ پنجاب   میں سکھوں کے ظلم وستم  کا استیصال اس کا اولین ہدف تھا ۔ بالاکوٹ میں سید صاحب  اور آپ کے قریبی احباب  کی شھادت کے بعد بھی بہت عرصہ مسلح جدوجہد جاری رہی۔ تاہم،1857 کے بعد یہ تعلیمی جدوجہد میں تبدیل ہوئی اور مدرسہ دارالعلوم دیوبند، سہارنپور، ندوۃ العلماء ، اہلِ حدیث کے مدارس وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہوئی  جو اپنے طلباء میں جہاد کی آبیاری کرتے رہے۔  کانگریس کے قیام کے بعد یہ تحریک سیاسی جدوجہد میں تبدیل ہوئی۔ پہلے جمیعت علمائے ہند اور پھر جمیعت علمائے اسلام کی صورت میں اس تحریک کے لواحقین  دو الگ راستوں کے راہی بنے۔ جمیعت علمائے ہند نے، ہندوستان کے نئے  سیاسی منظر نامے کے  معروضی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے  ،  مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے  نظریے  سے دستبردار ہو کر مشترکہ  قومیت اور جمہوریت کے اندر سیکولر ازم کے ذریعے مذہبی آزادی کے خیالات  کو اپنا لیا ۔ لیکن جمیعت علمائے اسلام ،سید صاحب کے نظریے سے  زیادہ قریب رہی۔ اس نے مسلم لیگ کے  الگ وطن کی جدوجہد میں اسلامی سلطنت کا خواب پھر سے استوار ہوتے دیکھا تو اس میں شامل ہوگئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد، حکومتوں کے اسلام نافذ کرنے سے گریز کی روش کی وجہ سے  یہ تحریک آئینی جدجہد میں  تبدیل ہو گئی۔ پھر یہ بتدریج جارحانہ ہوتی چلی گئی۔ تحریکِ نفاذِ نظامِ مصطفی   سے یہ احتجاج میں تبدیل ہوئی اور تحریک نفاذِ شریعت اور طالبان  کی صورت میں پھر سے مسلح ہوگئی۔ یوں دیکھئے تو سید صاحب کی تحریک تاریخ کا چکر کاٹ کر پھر اسی نقطہ پر کھڑی ہوگئی جہاں سے چلی تھی۔
 سید صاحب کی تحریک کی بنیاد حکومتِ الہیہ کے قیام،  نجی جہاد، امامت اور  شاہ عبد العزیز کے دارالحرب  کے فتوی پر تھی ۔ سید ساحب کے نزدیک، شاہ ولی اللہ کے تعلیمات کی روشنی میں، قیامِ خلافت یا اسلام کا سیاسی غلبہ واجباتِ دین میں سے ہے۔ ہندوستان میں غیر مسلم کے بڑھتے اقتدار کے نتیجے میں  شاہ عبد العزیز کے فتوی کی رُو سے ہندوستان دارالحرب  بن چکا تھا۔ اسلامی سیاسی غلبہ کے لیے جہاد فرض تھا اور چونکہ کوئی مسلم حکمران اس کے لیے تیار نہ تھا تو چند لوگوں نے اس کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے نجی طور پر شروع کرنا ضروری سمجھا۔ اس کے لیے دستیاب امام سید احمد شہید تھے۔
 راقم الحروف  کے مطابق، سید صاحب کی تحریک کی یہ نظریاتی بنیادیں اسلام کی غلط تعبیرات سے پیدا ہوئیں، یہی تعبیرات ہمارے دور تک چلی آ رہی ہیں اور بےشمار تحاریکِ جہاد کو جنم دے چکی ہیں۔ راقم کے نزدیک، مسلمانوں کے لیے حالتِ اقتدار میں نفاذِ شریعت فرض ہے لیکن نفاذِ شریعت کے لیے حصولِ ریاست فرض یا واجب نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے صاحبِ مال کے لیے ادائیگیِ زکوۃ فرض ہے لیکن ادائیگیِ زکوۃ کے لیے کسبِ مال فرض یا واجب نہیں ۔نیزنجی جہاد کا کوئی تصور اسلام میں نہیں۔ جہاد امامت اور ریاست کے تحت ہی کیا جاسکتا ہے۔ جہاد کی اجازت اور احکامات ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل کیے گئے ہیں اس لیے جہاد و قتال سے متعلق تمام آیات کو ریاستِ مدینہ کے قیام کے بعد کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ حکومت کی کوتاہی سے اگر حدود کا نفاذ نجی شعبہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تو جہاد کو کیوں کر نجی شعبہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔   جہاں تک دارالحرب کے فتوی کا تعلق ہے تو کسی  جگہ کا  دارالحرب قرار پا جانے کے بعد  پہلا تقاضا ہجرت  ہوتاہے ،  لیکن ہمیں اس وقت کے ہند کے مسلمانوں یا کم از کم پنجاب کے مسلمانوں سے اس کا  مطالبہ نظر نہیں آتا۔ لاکھوں مسلمانوں میں سے زیادہ سے زیادہ پندرہ سو مسلمانوں نے سید صاحب کے ساتھ ہجرت کی تھی جو کہ انتہائی ناکافی تعداد ہے۔
 سید صاحب کے طریقہ کار میں نوٹ کیا گیا کہ آپ نے جہاد پہلے شروع کیا  (اکوڑہ کا شب خون)، بیعتِ امامت بعد میں لی (جب دیکھا کہ مقامی مجاہدین جنگ کی بجائے مالِ غنیمت کے کر چلتے بنے اور اس کی شرعی تقسیم پر آمادہ نہ ہوئے)، اس کے بعد ریاست کے حصول کی کوشش کی  اور اس کے بعد لوگوں پر شریعت کا نفاذ  کرنے کی کوشش کی جو اس کے لیے تیار نہ تھے۔ یہ ترتیب رسول ﷺ کی سنت کے بالکل برعکس ہے۔ آپؐ  کو مدینہ کے لوگوں نے اپنا امام پہلے تسلیم کیا، پھر خود سے ریاست مہیا کردی، آپؐ نے  ان کی مرضی سےان پر شریعت  نافذ کی ، اور  جہاد سب سے آخر میں کیا گیا۔ اس کے علاوہ  سید صاحب نے دشمن کے مقابلے میں عددی  قوت کےفرق کو نظر انداز کیا۔آپ کے پاس قابلِ بھروسہ جنگجوؤں کی تعداد 1500 سے زیادہ نہ تھی، جو پوری طرح مسلح بھی نہ تھے اور بنیادی ضروریات کی تکمیل  سے بھی تہی تھے ۔ جب کہ سکھوں کی صرف سرحدی فوج  8000 سے 10،000 تک تھی۔
اسلامی خلافت کا قیام دین کا کوئی ایسا واجب تقاضا نہیں کہ اس کی خاطر مہمیں چلائیں جائیں اور قیمتی جانیں قربان کی جائیں.  مسلمانوں پر صرف یہ فرض ہے کہ وہ جب بھی پرامن طریقہ سے  اقتدار میں آئیں، خواہ مطلق حیثیت سے یا مخلوط حکومت میں، تو مسلم معاشرے کے مسلم افراد پر اسلام کے اجتماعی احکامات کا نفاذ کردیں۔
مگر انہی باتوں کو واجب قرار دے کر جو تحریک برپا کی گئی تھی وہ آج بھی زندہ ہے۔ یہاں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر  ہم پہلے فریق (سید احمد شہید) کو درست قرار دیتے ہیں تو اس دوسرے فریق (طالبان) کو غلط نہیں کہہ سکتے. اگر دوسرا غلط ہے تو پہلے کی تغلیط کی ہمت بهی لامحالہ کرنی ہوگی. ہمیں اس دوغلے پن سے براءت کا اعلان کرنا ہوگا۔ سید صاحب کی اس  پراثر تحریک کا درست تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مستقبل کے اولوالعزم مسلمان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اسلام کی خدمت میں بہتر طور پر استعمال کیا  جا سکے۔
ڈاکٹر عرفان شہزاد

رکن مجلسِ ادارت 'البصیرہ' نمل اسلام آباد

No comments:

Post a Comment