Thursday 28 April 2016

دو قومی نظریہ :علیحدگی کی نفسیات کی بنیاد

قوموں کی ایسی نفسیاتی گرہیں معلوم کرنا اور ان کا علاج کرنا ضروری ہوتا ہے, جو ان کے اجتماعی رویوں کی تشکیل کا باعث ہوتی ہیں۔ علامہ محمد اسد (Leopold Weiss) ایک یہودی المزہب یورپی صحافی تھے، 1926 میں اسلام قبول کیا اور بڑے عالم دین بنے، انھوں نے لکھا ہے کہ یورپ کی نفسیات میں صلیبی جنگون کا تاثر بہت گہرا ہے اور اسی لیے وہ اسلام کا مطالعہ غیر متعصب ہوئے بنا عموما نہیں کرپاتے۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یہ عرض کرنے کی جرات کرتا ہوں کہ پاکستانی عوام کے موجودہ انتہا پنسدانہ رویے اور تنگ نظری کے پیچھے تقسیم ہند 1947 کا نفسیاتی دخل بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے میں اس پر لکھتا ہوں اور اسے بے وقت کی راگنی نہین سمجھتا۔
دو قومی نظریہ کا لب لباب یہ ہے کہ اگر آپ دوسرے سے مختلف ہیں تو علیحدہ ہو جائیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کو علمی، تاریخی اور ایمانی بنیادوں پر اور نصابی کتب کی ذریعے معصوم ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے، پھر جب یہ ذہین بڑا ہوتا ہے تو اپنے سے مختلف لوگوں اور ثقافتون کو برداشت نہیں کر پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ تقسیم ہند سے اب تک بتدریج زیادہ عدم برداشت کا شکار ہوتے چلے گئے ہیں۔
ایک مثال لیجئے: وہ بچہ جو بڑے مخلوط خاندان میں پلا بڑھا ہو، اس میں اور اس بچے کے برتاؤ میں بہت فرق ہوتا ہے جو اکیلے یا محض اپنی سنگل فیملی مین پرورش پائے۔ مختلف رشتہ داروں اور کزنز مین پلے بچے میں قوتِ برداشت اور معامہ فہمی کی صلاحیت زیادہ ہوگی جب کہ سنگل فیملی والا بچہ بات بات پر اپنے دوستوں اور ہم عمروں سے لڑ پڑتا ہے یا ناراض ہوجاتا ہے۔ بطورِ استاد مین بچہ کا برتاؤ دیکھ کر معلوم کر لیتا تھا کہ یہ بچہ کس طرح کی فیملی میں پروان چڑھا ہے۔
یہی حال ہوا پاکستانی عوام کا۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے انہی علاقوں میں ہندو مسلم بڑے سکون سے رہاکرتے تھے، بڑا میل جول ہوتا تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ ان کے مذاہب پر مزاح بھی کرتے تھے لیکن ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں معاشرتی طور پر شامل بھی ہوا کرتے تھے۔ پھر سیاست آئی اور اس نے اچانک بتایا کہ تمہارے ساتھ رہنے والا مذہب اور ثقافت کے لحاظ سے تم سے مختلف ہے، اس لیے یہ تمہارا دوست نہیں ہے، اسے خود سے اجنبی بناؤ۔ پھر یہی ہوا اور اجنبیت بڑھتی چلی گی۔ دو ملک بن گئے مگر اجنبیت کا سفر جاری رہا، پھر اسی نفسیات نے بنگلہ دیش بنوا دیا، لیکن اجنبیت کا سفر پھر بھی نہ رکا، اب ملک میں اپنے مسلک مشرب، سیاسی اور ثقافتی اختلافات رکھنےوالوں کو برداشت نہین کیا جا رہا۔ اب ملک کے بعض حصے الگ ملک تو نہ بن سکے مگر نو گو ایریاز بن گئے، علیحدگی کی نفسیات ہمیں اپنے جیسے انسانوں سے دور کرتی چلی جا رہی ہے۔
نہ جانے یہ سفر کس حد پر ختم ہوگا۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ مریض کو اپنے مرض کا احساس ہی نہیں کہ علاج کی طرف متوجہ ہو۔
راقم : ڈاکٹر عرفان شہزاد، راولپنڈی
ای میل : irfansehzad76@gmail.comTop of FormBottom of Form