Thursday 28 April 2016

ہمارے ہاں غیر مسلم توہینِ رسالت کیوں کرتے ہیں (جو حقیقت میں اگر کرتے ہیں)؟

ہمارے ہاں غیر مسلم توہینِ رسالت کیوں کرتے ہیں (جو حقیقت میں اگر کرتے ہیں)؟
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں توہینِ رسالت کے درج کیے جانے والے مقدمات میں محتاط اندازے کے مطابق   80سے 90 فیصد   ،، جعلی ہوتے ہیں۔ صاحبزادہ ضیاءلندان والے کی تحقیق کے مطابق،  توہین رسالت کی دفعہ 295 C کے تحت 1986 سے لے کے 2004 تک پاکستان میں رجسٹرڈ کیسوں کی تعداد 5000 سے زائد ہے،  5000 افراد جن کے خلاف توہین رسالت کے کیسز رجسٹر ہوئے ، ان میں سے 964 افراد کے کیس عدالتوں میں پہنچے ، 4036 کیسز ابتدائی اسٹیج پر ہی جعلی ثابت ہونے پر خارج کردئے گئے، سب سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے، کہ 86% فیصد کیسز صرف پنجاب میں رجسٹر ہوئے،یعنی 5000 میں سے 4300 کیسز، جن 964 افراد کے کیس عدالتوں میں گئے، ان میں سے بھی 92% فیصد کیسز کا تعلق پنجاب سے تھا۔ حقیقت ہے کہ  توہین کا صدور کسی صحیح الدماغ آدمی سے عموما ممکن نہیں۔ نیز، توہینِ  رسالت کے موجودہ سخت قانون  اور اس سے بڑ ھ کر عوام کی دیوانگی کی حدوں کو چھوتی ہوئی جذباتیت  کی موجودگی میں کوئی شخص بالفرض توہین ِ مذھب یا توہینِ رسالت کرنا بھی چاہے تو   باہوش و  حواس ایسا کرنے کی جرات نہیں کر سکتا   ۔ اگر اس سب کے باوجود توہینِ رسالت  کوئی کرتا ہے تو اتنے خوفناک حالات کے باوجود اس کی اس حرکت کی  وجوہات کا کھوج لگانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ  ہم اپنی جاہلانہ روایات کی بنا پر جو سلوک غیر مسلم اقلیت سے کرتے ہیں وہ سب کو معلوم ہے، انہیں اچھوت اور ناپاک سمجھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ہاتھ ملانا بھی  مکروہ سمجھا جاتا ہے، ان کے ساتھ کھانا پینا تو دور کی بات ان کے کھانے پینے کے برتن الگ رکھے جاتے ہیں، اسلام قبول کرنے کی دعوت معاشرتی دباؤ کے ساتھ دی جاتی ہے۔ اور نہ قبول کرنے پر حقارت آمیز انداز اختیار کیا جا تا ہے۔ ہر تعلیمی ادارے میں  طلبہ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ کیا غیر مسلم کو سلام کرنا جائز ہے، ان کے ساتھ کھاناکھایا جا سکتا  ہے۔یہ سوالات معاشرے کے مجموعی رویے کا پتا دیتے ہیں۔
تعلیم ملازمت اور زندگی کے دیگر شعبہ جات میں غیر مسلموں سے امتیازی سلوک  عام ہے ۔ ان کی بستیاں اور قبرستان الگ بسائے جاتے ہیں۔ خاکروب اورنچلی سطح کے کام ان کے ساتھ مخصوص کردیے گئے ہیں۔

یہ ساری جہالت اسلام کے نام پر کی جاتی ہے۔ اس کو نبی کریم کے عشق کا تقاضا سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ذرا سوچیے کہ اس کے بعد اسلام اور نبی کریم ﷺ کا کیا تاثر بنتا ہے ایک غیر مسلم کے ذہین میں؟ اسی تاثر کو اگر کبھی ہمارے سلوک سے تنگ آ کر  وہ ظاہر کر دیتا ہے تو توہینِ رسالت کامرتکب بھی وہی ٹھہرتا ہے، جس پر اس کی موت لازمی ہے، کیونکہ توبہ اور معافی کی گنجایش قانون   میں رکھی ہی نہیں گئی  ۔اب یہ موت عدالت سے نہ بھی ملے تو عشقِ رسول میں سرشار عوام اسے  مار ڈالتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہماری ان حرکتوں اور رویوں کے بعد غیر مسلم کے ذہن میں نبی پاک ﷺکا جو  منفی تاثر پیدا  ہوتا ہے اس تاثر کے پیدا کرنے والے  مسلمان کیا توہینِ رسالت کے مرتکب نہیں ہیں ؟ ان کی کیا سزا  ہونی چاہیے ؟   ذرا سوچیے،بھلا ایسا کون سا غیر مسلم ہوگا جس کو نبی کریم ﷺ کے نام  لیواؤں سے وہی  عزت واحترام اور حقوق مل رہے ہوں جو نبی کریم خود غیر مسلمو ں کو  دیا کرتے تھے  اور  وہ  پھر بھی  نبی کریم ﷺ  کی شان میں گستاخی کرے ؟ یقین جانیے کہ جو توہین کرتے ہیں اس کی وجہ نبی کریم کی ذات پاک نہیں ہمارے جاہلانہ رویے ہیں جو ہم اپنے نبی کے نام پر ، ان کے عشق میں ان  غیر مسلموں کے ساتھ  روا رکھتے ہیں۔  سزا  پہلےہمیں ملنی چاہیے۔
ہمارے مولویوں نے جتنی محنت سے نبی کریم کی دیوانہ وار محبت  ہمارے لوگوں میں پیدا کی ہے، اتنی ہی محنت اگر وہ لوگوں میں صحیح اسلامی اور نبوی اخلاق کی ترویج کے لیے  بھی کرتے تو ایسی صورتِ حال ہی پیدا نہ ہوتی، جس سے پاکستانی معاشرہ دوچار ہے کہ نبی کریمﷺ کے اعلی اخلاقیات پر عمل پیرا ہونے  کو تو تیار نہیں لیکن ان کے نام پر کسی کو بھی قتل کرنے کو تیار ہے۔

اب بھی اگر مولوی اور علماء حضرات ہمارے نبی ﷺ کے اس حقیقی مقصد کی طرف توجہ دیں کہ لوگوں کے اخلاق سنوارنا اولین ترجیح ہے، نیز،نبی  ﷺ کی محبت کے ساتھ  نبیﷺ کے اخلاق  اور دین کا شعور بھی مسلمانوں میں  پیدا کرنے کے  لیےاپنی توانائیاں صرف کریں ، مزید یہ کہ غیر مسلموں کو ان کے حقوق دیں جن کا نبی نے حکم دیا ہے تو  توہینِ رسالت تو دور کی بات وہ خود نبی کریم ﷺ کی   عظمت کے گن گائیں گے۔

1 comment: