Thursday 28 April 2016

عشق ِرسول میں سرشار نبی ﷺ کے امتیو،

عشق ِرسول میں سرشار نبی ﷺ کے امتیو،
نبی ﷺ کا فرمان ہے:
من رایتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل و المفعول بہ
"تم جسے دیکھو کہ قوم لوط والا عمل کر رہا ہے تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو"
(رواه أبو داود في السنن برقم (4462) والترمذي في السنن برقم (1455) وابن ماجة في السنن برقم (2561) . [حكم الألباني] : صحيح)
سوال یہ ہے کہ اس حدیثِ مبارکہ کی رو سے آج تک کتنے قتل ہوئے؟ اگر نہیں ہوئے تو کیوں نہیں ہوئے؟ حدیث صحیح ہے۔ حکم مطلق ہے۔ ریاست کی کوئی قید نہیں۔ کوئی ابہام نہیں۔  تو پھر نبیﷺ کے عشق میں سرشار امتیو، ایسے بد فعل کرنے والوں کے سر تن سے جدا کیوں نہیں کئے تم نے؟ جس کو قتل کرنے کا حکم نبی ﷺ خود دے، اس کو قتل کرنے میں کیا رکاوٹ  تھی ؟
یہ حدیث ہر مدرسے میں پڑھائی جاتی ہے ، وہاں پر  ایسی  حرکتیں کرنے والوں کے سر  کاٹنے کی بجائے  آپ نے پردے کیوں ڈالے؟ کیا یہ فرمانِ نبی ﷺ کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ اور جو اس حکم کی خلاف ورزی کرے اس کا کیا حکم ہے ؟
کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ:
افتؤمنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض
کیا تم خدا کی کتاب کے کچھ حصے کو مانتے ہو اورکچھ سے انکار کرتے ہیں؟
اس فعلِ بد کے خلاف قانون سازی کے لیے کوئی تحریک کیوں نہیں چلائی تم نے؟ اس برائی کے خلاف  وہ شدت اور جوش عمل تم میں کیوں نہیں دکھائی نہیں دیتا جوو یلنٹائنز ڈے پر پابندی  اور توہینِ رسالت کے مجرموں کے لیے دکھائی دیتا ہے؟
جو اس صحیح حدیث کو صحیح  نہ سمجھے وہ کافر، جو اس کو صحیح سمجھ  کر بھی عمل نہ کرے وہ منافق،  جو اس محکم حدیث میں تاویل کریں وہ منکرِ حدیث، جو اس  حکم کے باوجود کوئی اور سزا تجویز کرے   وہ مرتد، کیوں کہ اس نے  نبی کے فرمان کو چھوڑ کر طاغوت کی غلامی قبول کر لی۔ یہ سب واجب القتل ہیں،انہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔
اپنے اکابر سے پوچھو کہ اس صحیح حدیث کے ہوتے وہ کیوں ایسوں کےقتل کےفتوی جاری نہیں کئے ؟ ان مجرموں کے لیے ان کے دل میں  ایسی   نرمی کیوں ہے؟یہ کیسا عشقِ نبی کے   کہیں  طوفان اٹھا دیتے ہو اور کہیں  آنکھیں بند کر لیتے ہو اور دوسروں کو بھی زبان بند رکھنے کی تلقین کرنے لگتے ہو؟ یہ دوہرا معیار کیوں؟
مدارس دین کے قلعے ہیں. دین کی حفاظت کی ہر تحریک مدارس سے اٹھی ہے. امید ہے مدارس والے مجاہدین اس بدترین گناہ کرنے والوں کے خلاف جہاد شروع کریں گے، آئین میں اس  جرم کی سزا موت لکھوائیں گے، اپنا ہو یا پرایا جو اس جرم میں ملوث  ہوا اس کا سر تن  سے جدا کردیں گے ۔ اور اب تک جو اس حدیث پر عمل نہیں کیا اس کا کفارہ ادا کریں گے۔

اے عشقِ نبی میں سرشار امتیو،
حیی علی الجہاد...
Top of FormBottom of Form

No comments:

Post a Comment