Thursday 13 August 2015

غصبِ خلافت کا ابطال قرآن کی روشنی میں


خلافت راشدہ کے بارے میں میرے نظریے کی بنیاد درج ذیل اصول ہے  جو قرآن کی واضح آیات سے متبادر ہے۔  اس اصول یا قانونِ خداوندی کے دو  حصے ہیں:
الف)      رسول کے مخالفین ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں۔ نہ صرف ناکام بلکہ ذلیل بھی ہوتے ہیں۔
قُلْ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ ٱلْمِهَادُ(3:12)
ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا ہے یہ کہہ دو کہ تم مغلوب ہوگے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ کیا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔(8:36)
إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّواْ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوۤاْ إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ
جن لوگوں نے کفر کا یہ رویہ اختیار کر رکھا ہے، وہ اپنے مال خدا کی راہ سے روکنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں۔ وہ آگے بھی خرچ کرتے رہیں گے، پھر یہ اُن کے لیے حسرت بن جائے گا، پھر مغلوب ہوں گے اور سب منکروں کو جمع کرکے جہنم کی طرف ہانک دیا جائے گا
ب)         رسول اور اس کے حامی لازما اس دنیا میں نہ صرف کامیاب ہوتے ہیں بلکہ غلبہ پاتے ہیں۔
كَتَبَ ٱللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَاْ وَرُسُلِيۤ إِنَّ ٱللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ(58:21)
اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔
 اور یہ سب اس دنیا میں سب کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے تاکہ خدا کی طرف سے دلیل بن سکے ۔ اس دلیل کو خدا بار بار ان لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے جو موجودہ رسول کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر نیا رسول گزشتہ رسول کے غلبے اور اس کے مخالفین کی شکست اور ذلالت کو دلیل بنا کر اپنی قوم کے سامنے پیش کرتا ہے۔  مثلا:
وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شِقَاقِي أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ(11:89)
"(شعیب نے کہا) ور اے میری قوم کہیں میری ضد تمہارے لیے اس امر کا باعث نہ بن جائے کہ تم پر بھی اسی طرح کی آفت نازل ہو جس طرح کی آفت قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح پر نازل ہوئی اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور بھی نہیں"۔
سورہ قمر میں یہ بتا کر کہ تمام انبیا ء کے مخالفین کو اسی دنیا میں سزا دی گئی اور ان کو رسوا کیا گیا،اللہ تعالی  رسول اللہ کے منکرین کے بارے میں فرماتا ہے:
أَكُفَّارُ‌كُمْ خَيْرٌ‌ مِّنْ أُولَـٰئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَ‌اءَةٌ فِي الزُّبُرِ‌ (54:43)
"(پھر) تمھارے یہ منکر کیا اُن (کفار)سے کچھ بہتر ہیں یا صحیفوں میں تمھارے لیے کوئی معافی لکھی ہوئی ہے؟"
تو  ضروری  تھا کہ حضرت محمد ﷺ کے تمام  مخالفین بھی نہ صرف ناکام ہوتے بلکہ ذلیل بھی  ہوتے۔ اور وہ ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کے تین مخالفین تھے:
1.       مشرکین
2.       اہل کتاب
3.       منافقین
 اس  قانون خداوندی کے مطابق ان سب کا قلع قمع ہونا اور ذلیل و رسوا ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ  مشرکین کو حجۃ الوداع کے بعد 4 ماہ کی مہلت دینے کے بعد ان سے اعلان جنگ کر دیا گیا۔
بَرَ‌اءَةٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ فَسِيحُوا فِي الْأَرْ‌ضِ أَرْ‌بَعَةَ أَشْهُرٍ‌ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ وَأَنَّ اللَّـهَ مُخْزِي الْكَافِرِ‌ينَ وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ‌ أَنَّ اللَّـهَ بَرِ‌يءٌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ وَرَ‌سُولُهُ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ وَبَشِّرِ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُ‌وا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ‌ الْحُرُ‌مُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِ‌كِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُ‌وهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْ‌صَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ (9:1-5)
اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکوں کے لیے اعلان براء ت ہے جن سے تم نے معاہدے کیے تھے سو (اے مشرکین عرب)، اب ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور یہ بھی کہ اللہ (اپنے پیغمبر کا) انکار کرنے والوں کو رسوا کر کے رہے گا (پھر حج کا موقع آئے تو اِس سرزمین کے) سب لوگوں تک پہنچانے کے لیے بڑے حج کے دن اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اعلان عام کر دیاجائے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسول بھی۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمھارے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیرو گے تو جان لو کہ تم اللہ سے بھاگ نہیں سکتے۔ (اے پیغمبر)، اِن منکروں کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو وہ مشرکین، البتہ (اِس اعلان براء ت سے) مستثنیٰ ہیں جن سے تم نے معاہدہ کیا، پھر اُس کو پورا کرنے میں اُنھوں نے تمھارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی ہے۔ سو اُن کا معاہدہ اُن کی مدت تک پورا کرو، اِس لیے کہ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو (بد عہدی سے) بچنے والے ہوں (بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور (اِس مقصد کے لیے) اِن کو پکڑو، اِن کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھو۔پھراگر یہ توبہ کر لیں اور نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔ یقیناًاللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
نیز فرمایا:
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ‌ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُون(12-11-:9)
"سو اگر توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو تمھارے دینی بھائی ہیں۔ ہم اُن لوگوں کے لیے اپنی آیتوں کی تفصیل کیے دے رہے ہیں جو جاننا چاہتے ہوں۔ور اُس عہد کے بعد بھی جو اُنھوں نے کر رکھا ہے، اگر وہ اپنے قول و قرار توڑ ڈالیں اور تمھارے دین میں عیب لگائیں تو کفر کے اِن سرخیلوں سے بھی لڑو۔ اِن کے قول و قرار کچھ نہیں، (اِس لیے آج نہیں تو کل اپنا عہد توڑ دیں گے، لہٰذا لڑو) تا کہ یہ (اِس کفر و شرک سے) باز آ جائیں۔"
قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْ‌كُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ‌ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ (9:14)
اُن سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے اُن کو سزا دے گا اور اُنھیں ذلیل و خوار کرے گا اور تمھیں اُن پر غلبہ عطا فرمائے گا اور مومنوں کے ایک گروہ کے کلیجے (اِس سے) ٹھنڈے کرے گا۔
پھر کچھ قتل ہوئے اور باقیوں نے اسلام قبول کر لیا۔
  یہود اور نصاری کو عرب میں ذلت کے ساتھ رہنے کی اجازت کے دی گئ:
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَلَا يُحَرِّ‌مُونَ مَا حَرَّ‌مَ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُ‌ونَ (9:29)
)اِن مشرکوں کے علاوہ) اُن اہل کتاب سے بھی لڑو جو نہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اُس کے رسول کے حرام ٹھیرائے ہوئے کو حرام ٹھیراتے ہیں اور نہ دین حق کو اپنا دین بناتے ہیں، (اُن سے لڑو)، یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور ماتحت بن کر رہیں۔
رہ گے  منافقین تو ان  کو بھی ان کے انجام تک پہنچا دیا گیا ۔ تاکہ کوئی  ابہام نہ رہے اور خدا کا وعدہ کامل طریقے سے پورا ہو۔:
يَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ‌ وَكَفَرُ‌وا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرً‌ا لَّهُمْ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ‌(9:74)
یہ خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ اِنھوں نے وہ بات نہیں کہی، حالاں کہ کفر کی وہ بات اِنھوں نے ضرور کہی ہے اور (اِس طرح) اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے ہیں اور اِنھوں نے وہ چاہا ہے جو پا نہیں سکے ہیں۔ اِن کا یہ عناد اِسی بات کا صلہ ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول نے اپنے فضل سے اِن کو غنی کر دیا ہے(مال غنیمت سے حصہ دے کر)۔ سو اگر یہ( اب بھی) توبہ کر لیں تو اِن کے لیے بہتر ہے اور اگر اعراض کریں گے تو اللہ اِن کو دردناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور زمین میں اِن کا نہ کوئی حمایتی ہو گا، نہ مددگار۔
"دنیا میں بھی " کا اصول قابل توجہ ہے۔ یہ ذلت انہیں اس دنیا میں ضرور ملتی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے تمام مخالفین کو ملی۔
اس کے مقابل رسولوں کے غلبے کا وعدہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے پیرو کاروں کے حق میں پورا ہوا۔  اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ:
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْ‌تَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِ‌كُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ‌ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ(24:55)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل صالح کیے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک میں اقتدار بخشے گا جیسا کہ ان لوگوں کو اقتدار بخشا جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جس کو ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرایا اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو درحقیقت وہی لوگ نافرمان ہیں۔
" تم میں سے " کے الفاظ قابل غور ہیں۔ یہ' تم' گروہِ صحابہ تھا، نیز کسی خاص شخص کی تشخیص نہیں کی گئی۔ اب ان میں سے جن کو اقتدار ملا ان کو خدا کے اسی قانون کے تحت ملا کہ رسول اور ان کے پیروکار لازما غلبہ پاتے ہیں۔ اور اس کے لیے ایمان اور عمل صالح شرط تھا۔ جیسا کہ آیت میں کہا  گیا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کے پیروکاروں میں سے جس کو بھی اقتدار ملا وہ انہیں اس وعدہء الہی کے تحت ہی ملا۔ اس میں کسی کسی کافر، منافق ،   کاذب یا غاصب کے غلبے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ میں خلفاء راشدین  کی خلافت اس اصول کے تناظر میں دیکھتا ہوں۔
و ماعلینا الا البلاغ
ہمارے ذمے تو بس واضح طور پر بیان کرنا ہے۔

No comments:

Post a Comment