Monday 26 October 2015

قرآن کے قطعی الدلالۃ اور ظنی الدلالۃ کی بحث، حافظ زبیر صاحب کا موقف اور اس پر میرا تبصرہ

24 اکتوبر، 2015 کو ڈاکٹر حافظ محمد زبیر نے المورد کے زیر انتظام ویبینار (webinar) سے خطاب فرمایا۔ موضوع تھا:
ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے کہ کیا:
۱- قرآن مجید قطعی الدلالۃ ہے۔
۲۔ قرآن مجید ظنی الدلالۃ ہے۔
۳۔ قرآن مجید قطعی الدلالۃ اور ظنی الدلالۃ دونوں ہے۔
قطعی الدلالۃ کا مطلب:               کلام کے قطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ کی اپنے معنی اور مفہوم پر دلالت اس طرح  متعین طریقے سے ہو کہ کسی اور معنی اور مفہوم کا احتمال نہ ہو۔
ظنی الدلالۃ کا مطلب:                                کلام کے ظنی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کلام کے معنی اور مفہوم میں ایک سے زیادہ احتمالات پائے جاتے ہوں یا پائے جا سکتے ہوں۔
موضوع کی اہمیت :
یہ ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ قرآن کی حیثیت پر یہ براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
قرآن اپنے بارے میں کہتا ہے کہ
وہ میزان اور فرقان ہے:
اللَّـهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ (42:17)
اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری، یعنی میزان نازل کی ہے ۔
بَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (25:1)
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان امتیاز کر دینے والی کتاب اتاری تا کہ وہ اہل عالم کے لیے ہوشیار کر دینے والا بنے!
میزان اور فرقان ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ اسی کے ذریعے متنازع امور کے فیصلے کیے جائیں گے:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ(5:48)
 اور ہم نے، (اے پیغمبر) تمھاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے، قول فیصل کے ساتھ اور اُس کتاب کی تصدیق میں جو اِس سے پہلے موجود ہے اور اُس کی نگہبان بنا کر، اِس لیے تم اِن کا فیصلہ اُس قانون کے مطابق کرو جو اللہ نے اتارا ہے اور جو حق تمھارے پاس آچکا ہے، اُس سے ہٹ کر اب اِن کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت،یعنی ایک لائحۂ عمل مقرر کیا ہے۔ اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا، مگر( اُس نے یہ نہیں کیا)، اِس لیے کہ جو کچھ اُس نے تمھیں عطا فرمایا ہے، اُس میں تمھاری آزمایش کرے۔ سو بھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم سب کو (ایک دن) اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا سب چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔
یعنی دینی معاملات میں تمام نزاعات، اختلاف، احتمالات، اور مخمصات کے فیصلہ کےلیے آخری اور فیصلہ کن حیثیت قرآن کی ہے۔ لیکن اگر قرآن محتمل الوجوہ ہے۔ اس کی آیات کے ایک سے زیادہ مفاہیم ہوتے ہیں، جو باہم متخالف بلکہ متضاد بھی ہو سکتے ہیں تو قرآ ن یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے ختم ہو جاتی ہے۔ بھلا ایک جج یا قاضی، جس کی بات قطعی نہ  ہو، اس کی بات کے ایک سے زیادہ مفاہیم نکالے جا سکتے ہوں، وہ کیسے کسی بھی مخمصے یا اختلاف کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ فریقین اس کے بنان کی اپنی اپنی توجیہات کر کےاپنے اپنے مطالب نکالیں گے اور کوئی فیصلہ نہ پائے گا۔  جو قرآن کو  ظنی الدلالۃ مانتے ہیں ان کے  پاس اپنے موقف کے کچھ  دلائل ہیں جن کا ایک ضروری خلاصہ جناب حافظ صاحب کے بیان میں آ گیا ہے۔ ذیل میں ہم ان کے بیان کے خلاصہ پیش کرتے ہیں اور پھر اس پر ہم اپنا تبصرہ بھی پیش کریں گے۔
حافظ صاحب کے بیان کا خلاصہ :
لیکن اگر قرآن کی حافظ صاحب کے بیان کا خلاصہ میری سمجھ کے مطابق یہ ہے:
کلام اپنے متکلم کے نزدیک قطعی ہوتا ہے لیکن مخاطبین کے لحاظ سے قطعیت کا دعوی دو وجہ سے غلط ہے:
1
۔ انسانی زبان کا وسیلہ اظہار بنانا جس میں ابلاغ کی کوتاہیاں ناگزیر ہیں
2
۔ انسانی فہم کا ناقص ہونا
یعنی قرآن اس وجہ  وہ اس لیے ظنی ہو گیا کہ اس کے بیان کے لئے انسانی زبان اختیار کی گئی۔ اور یہ انسانی زبان کی خامی یا قصور ہے کہ اس میں بیان کر دہ بات بعض اوقات ظنی ہو جاتی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ انسانی فہم ناقص ہے۔ جو کچھ یہ سمجھتا ہے اس میں قطعیت کا دعوی کرنا غلط ہے۔
اس لحاظ سے قرآن ، خدا کے لیے قطعی ہے۔ اس کے رسول کے لیے بعد از بیان قطعی ہے، لیکن دیگر مخاطبین کے لیے کلی طور پر قطعی ہر گز نہیں۔
قرآ ن کا کچھ حصہ قطعی ہے اور کچھ ظنی۔
قرآن کو کلی طور پر قطعی الدلالۃ ماننا اور کلی طور پر ظنی الدلالۃ ماننا  یہ دونوں دعوے غلط، بلکہ گمراہی اور ضلالت ہیں۔
قرآ ن کی وہ آیات جن میں مفسرین کا کوئی اختلاف نہیں وہ قطعی ہیں، اور جن میں اختلاف ہوا ہے وہ ظنی ہیں۔
قرآن کی کسی آیت کی قطعیت اگر ایک مفسر کے لیے ثابت ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرے کے لیے بھی وہ حجت بن جائے۔ یعنی یہ قطعیت ذاتی اور داخلی نوعیت کی ہے۔ اور اس میں بھی خطا کا احتما ل ہےاور یہی احتمال قرآن کو ظنی بناتا ہے۔
قرآن کی قطعیت کا فیصلہ اس کےسیاق و سباق کے علاوہ خارجی ذرائع سے بھی ہوتا ہے، یعنی سنت ِ متواترہ اور حدیث سے۔ مثلا الصلوۃ، الصوم، کا اصطلاحی استعمال سنت سے معلوم ہونے کی بنا پر قطعی ہوا ہے، ورنہ یہ بھی ظنی ہی رہتا۔ حدیث بھی اگر قطعی الثبوت ہے تو قرآن کی کسی آیت کی ظنیت کو قطعی بنا سکتی ہے۔
قرآن فہمی کے ذرائع اختیار کر کے غوروفکر کرنے سے قرآن کی ظنی آیات کو قطعی المعنی بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کلی طور پر ممکن نہیں۔ قرآن کی کچھ حصہ ظنی رہے گا اور تاقیامت رہے گا۔ مثلا آیاتِ متشابہات کا حقیقی معنی معلوم کرنا ممکن نہیں تاہم، ان کا معنی ء مقصود سمجھ آ جاتا ہے۔
اس لیے یوں کہنا زیادہ بہتر ہے کہ قرآن کلی طور پر قطعی الدلالۃ نہین لیکن کلی طور پر قطعی القصد ہے، یعنی معنی مقصود سمجھ آ جاتا ہے۔ نیز ایک مفسر جو معنی اپنے نزدیک قطعی طور پر متعین کرے، اس میں خطا کا احتمال رکھے اور دیگر معانی کا احتمال تسلیم کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب کے اس موقف پر ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ:
حافظ صاحب کی ساری گفتگو کا مرکزی نکتہ یہ ہے :
قرآن کا کچھ حصہ ظنی الدلالۃ ہے اور وہ رہے گا  اس کی وجہ انسانی فہم کا حقیقت ِ مطلقہ  کے حصول کی  نارسائی اور انسانی زبان کے ابلاغی نقائص ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن اللہ کے نزدیک قطعی الدلالۃ ہے اور اس کے رسول کے نزدیک بعد از بیان قطعی الدلالۃ ہے۔
اگر قرآن کی کچھ آیات قطعی الدالالۃ ہیں اور کچھ ظنی الدلالۃ  ہیں ،تو قرآن کی حیثیت بطورِ میزان اور فرقان ختم ہو جاتی ہے۔ جو کہ قرآن کاحقیقی منصب ہے۔ جیسا کہ اوپر مذکور  ہوا۔ چونکہ یہ تعین کوئی کر نہین سکتا کہ قرآن کی کون سی آیات قطعی ہیں اور کون سے ظنی۔ اس لیے  جب بھی کسی مسئلے کے تصفیے کے لیے قرآن کی آیت پیش کی جائے گی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تو ظنی الدالۃ ہے۔ اس میں تو دیگر احتمالات پائے جاتے ہیں ۔بھلا وہ بات جس کے ایک سے زیادہ مفاہیم ہوں وہ جج اور قاضی کیسے بن سکتی ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ حافظ صاحب کی ساری بحث محض اعتباری  یا اضافی نوعیت کی ہے۔ یعنی قرآن خدا کے نزدیک تو قطعی الدلالۃ  ہے تو درحقیقت قطعی ہی ہوا۔ یہ تو  مخاطبین کا نقصِ فہم اور زبان کے ابلاغی مسائل ہیں، جس کی وجہ سے احتمالات پیدا ہو جاتے ہیں۔  حافظ صاحب نے احتمالات کے پیدا ہونے  کی وضاحت میں جن فلسفیانہ دلائل کا سہارا لیا ہے ان کے مطابق تو  کچھ بھی قطعی نہیں رہتا۔ تشکیکیت اور سوفسطائیت کے مطابق تو ہم جو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں وہ بھی محض اعتباری ہوتا ہے، حقیقیت میں وہ کیا ہے اس کا ادراک بھی انسانی ذہن کے لیے ناقابلِ رسا ہے۔اس پہلو سے دیکھئے تو برٹرنڈ  رسل کے مطابق ریاضی بھی قطعی نہیں، اعداد بھی قطعی نہیں۔ اسی طرح الفاظ اور معنی کے ربط میں بھی اتنے ابہام پیدا کر دئے گئے ہیں کہ زبان بذاتِ خود ظنی ہو جاتی ہے۔  اس لحاظ سے پورے قرآن کی ظنی سمجھنا ہی درست نتیجہ  ہو سکتا ہے ۔ لیکن پورے قرآن کی ظنی ماننے والوں کو حافظ صاحب گمراہ گردانتے ہیں ۔  اس ک بدیہی نتیجے سے بچنے کے لیے  حافظ صاحب نے یہ حل نکالا ہے کہ جن آیات  کے معنی اور مفہوم پرمفسرین  کا اجماع ہے اور  جن کے ایک ہی معانی اور مفاہیم سمجھے گئے ہیں، وہ تو قطعی ہیں اور جن مفاہیم کے تعین میں ان کے ہاں اختلاف ہوا ہے وہ آیات ظنی ہیں۔ لیکن کیا سب مفسرین کا فہم بھی ایک احتمال ہی نہیں؟ مثلا ساری انسانیت  صدیوں تک یہ سمجھتی رہی کہ سورج کو جس جگہ وہ دیکھتے ہیں وہ  وہیں ہوتا ہے لیکن سائنس نے بتایا کہ وہ وہاں آٹھ منٹ پہلے ہوتا ہے جہاں ہم اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔  اسی طرح کیا سارے مفسرین کا فہم مل کر بھی غلط نہیں ہو سکتا؟
لیکن حقیت یہ ہے کہ  قرآن کی ظنی الدلالۃ ثابت کرنے کے لیے مدعا کی بنیاد  ان سوفسطائی  نظریات پر رکھنا درست نہ ہوگا۔ انسانی عقل و فہم اعتباری سہی، لیکن یہ اعتباری فہم بھی معانی کی قطعیت کی تفہیم کے لیے کافی ہے۔  یہ نظریات ،  الفاظ  اور ان کے معانی سے حاصل ہونے والے  مشترکہ فہم  کی قطعیت میں ابہام پیدا نہیں کر سکتے۔  لفظ کے مختلف استعمالات میں انسانی عقل عمومًا دھوکا نہین کھاتی۔   جب کھاتی بھی ہے تو تنبیہ کرنے پر درست مفہوم سمجھ جاتی ہے ۔'شیر جنگل کا بادشاہ ہے 'اور' کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے' میں شیر کا مفہوم سمجھنے میں انسانی فہم دھوکا نہیں کھا سکتا۔ اور اگر کوئی شخص  دھوکا کھا بھی جائے تو اس سے یہ کلام ظنی نہیں ہو جاتا بلکہ اس  شخص کے فہم اور علم کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
انسان کے اسی فہم پر بھروسہ کر کے ہی خدا نے اسے  اپنا کلام عطا کیا ہےتا کہ وہ اس سےوہی مفہوم سمجھے گا جو متکلم کی مراد ہے۔ لیکن یہ انسان کی کوتاہی، قلت محنت، قلتِ تدبر، تعصب، ھوائے نفس وغیرہ کے حجاب  ہیں جو احتمالات پیدا کردیتے ہیں ۔  احتمالات کے پیدا ہونے سے قرآن ظنی نہیں ہوجاتا جو فی نفسہ قطعی ہے۔
اگریہ انسان کے بس سےباہر ہے کہ وہ قرآن کے  قطعی معانی  تک پہنچ سکے  تو خدا نے انسان کو تکلیف مالا یطاق دی ہے۔لیکن ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ قرآن خود  یہ اعلان کرے کہ وہ سمجھنے کے لیے نازل ہوا:
كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (2:242)
اللہ اِسی طرح تمھارے لیے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم سمجھنے والے بنو۔
اور سمجھنے ہی کے لیے موزوں کیا گیا:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ (54:17)
ہم نے اِس قرآن کو یاددہانی کے لیے نہایت موزوں بنادیا ہے۔ پھر کیا ہے کوئی یاددہانی حاصل کرنے والا؟
پھر اس کی تفہیم کے لیے اللہ نے جو وسائل اور ذرائع اختیار کیے وہ   کچھ یوں ہیں:
وہ ایک واضح کلا م ہے:
كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (11:1)
 یہ کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں، پھر خداے حکیم و خبیر کی طرف سے اُن کی تفصیل کی گئی ہے۔
وہ عربی مبین میں نازل ہوا ہے:
بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ (26:195)
صاف اور واضح عربی زبان میں۔
وہ سمجنے کے لیے موزوں ہے:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ (54:17)
ہم نے اِس قرآن کو یاددہانی کے لیے نہایت موزوں بنادیا ہے۔ پھر کیا ہے کوئی یاددہانی حاصل کرنے والا؟
اس میں تضاد پایا نہیں جاتا:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (4:3)
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں وہ بہت کچھ اختلاف پاتے۔
اس کے لیے شک میں مبتلا ہونے کی ضرور ت نہیں:
الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِينَ (3:60)
تمھارے پروردگار کی طرف سے یہی حق ہے ، لہٰذا تم کسی شبہے میں نہ رہو۔
اس دعوتِ فکر کے بعد  وہ قطعیت کے ساتھ اپنے معانی اور مفاہیم بھی نہ بتائے، یہ نہیں ہو سکتا ۔
 اپنے فہم کے نقص، یا قلتِ علم و تدبر کو قرآن کا نقص قرار دینا  قطعی طور پر غلط ہے۔ قرآن  بہرحال، قطعی الدلالۃ ہے ۔ ہمارا کام اس قطعیت  تک رسائی حاصل کرنا ہے۔
حافظ صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ محنت و تدبر کے بعد کچھ ظنی الدالالۃ آیات قطعی  الدلالۃ ہو سکتی ہیں،  تواس امکان کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ کوئی شخص اپنی محنت اور تدبر سے قرآن کی تمام آیات کے قطعی مفاہیم تک  بھی پہنچ سکتا ہے۔مسئلہ صرف ہے کہ انسان  معنی اور مفہوم کی قطعیت تک توپہنچ سکتا ہے لیکن اس حقیقت کو جان نہیں سکتا ہے کہ آیا وہ اس قطعیت  کو واقعتًا پا   بھی گیا ہے۔ اسی لیے  کسی کو بھی اپنے  فہم ِ قرآن کو دوسروں پر مسلط کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری  طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ  دوسروں کے لیے احتمال اور اختلاف کے حق تو تسلیم ہے، لیکن قرآن میں احتمالات کی گنجایش تسلیم نہیں۔ چنانچہ  اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا ایک مفسر اپنے اخذ کردہ معنی کو قطعی جان کر کسی دوسرے کے دوسرے معنی کی نفی تو لازمًا کرے گا، تاہم اپنے اخذ کردہ مفہوم کو دوسرے پر بہرحال مسلط نہں کرے گا۔ یہ ماننا کہ دوسرا شخص غلط سمجھا یہ  اس سے بہتر ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ قرآن بیک وقت ایک سے زیادہ احتمالات دے کر اپنے قاری کو کسی صریح اور قطعی نتیجے تک اصلًا پہنچنے نہین دینا چاہتا۔
رہی بات آیاتِ متشابہات کی تو ان متشابہ آیات کے بارے میں بھی اللہ نے  یہی فرمایا ہے کہ کوئی ان کی تاویل یعنی ان کی  حتمی  حقیقت  سے واقف نہیں ہو سکتا، نہ کہ ان کے قطعی معنی نہیں سمجھ سکتا۔ ہمارے نزدیک آیاتِ متشابہات سے مراد عالمِ غیب کے حالات و واقعات ہیں، جن کی حقیقت تو ہم جان نہیں سکتے لیکن ان کے بارے میں قرآ  ن کے بیان کو قطعیت سےسمجھ ضرور سکتے ہیں۔
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ(3:7)
وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری ہے جس میں آیتیں محکم بھی ہیں جو اِس کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور (اِن کے علاوہ) کچھ دوسری متشابہات بھی ہیں۔ سو جن کے دل پھرے ہوئے ہیں، وہ اِس میں سے ہمیشہ متشابہات کے درپے ہوتے ہیں، اِس لیے کہ فتنہ پیدا کریں اور اِس لیے کہ اُن کی حقیقت معلوم کریں، دراں حالیکہ اُن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (اِس کے بر خلاف) جنھیں اِس علم میں رسوخ ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم اِنھیں مانتے ہیں، یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے، اور ( حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کی چیزوں کو) وہی سمجھتے ہیں جنھیں اللہ نے عقل عطا فرمائی ہے۔
رہا یہ مسئلہ کے سنتِ متواترہ کے علاوہ حدیث یعنی اخبارِ احاد بھی اگر قطع الثبوت ہوں تو قرآن کے ظنی کو  قطعی میں بدل سکتی ہیں،  تو ہمارے نزدیک یہ ایک مغالطہ ہے۔احادیث قطعی  الثبوت بھی ہوں تو ان سےحاصل ہونے والاعلم ظنی اور نظری ہوتا ہے۔روایت بالمعنی کے مطلب  ہی اس میں ظنیت کو تسلیم کر لینا ہے۔ چنانچہ ظنی ذریعہ سے کسی ظنی مفہوم کو قطعی نہیں بنایا جا سکتا۔  تاہم، صحیح احادیث سے قرآن کے مفاہیم کو سمجھنے میں اس کے سیاق و سباق کے بعد سب سے زیادہ مدد ملتی ہے۔
راقم: ڈاکٹر عرفان شہزاد، پی ایچ ڈی اسلامیات، نمل، اسلام آباد۔

ای میل:irfanshehzad76@gmail.com

No comments:

Post a Comment