Saturday 12 September 2015

انشائیہ : ڈاگ سنٹر

انشائیہ : ڈاگ سنٹر
بھانت بھانت کے کتے بھانت بھانت کے لہجوں میں بھونک بھونک کر اپنے وجود، اپنی ذات اور نسل کی پہچان بتا رہے تھے۔ کچھ کتے شانِ بے نیازی سے آنے جانے والوں پربتجاہلِ عارفانہ ایک آدھ نظر ڈال لیتے اور پھر اپنا راتب کھانے میں مصروف ہو جاتے اور کچھ سستی کے مارے اپنے پنجوں پر منہ رکھے خود پر بیٹھنے والی مکھیوں کو محض بھنووٴں کی حرکت سے اڑانے پر اکتفا کر رہے تھے۔کسی ڈاگ سنٹر میں آنے کا یہ ہمارا پہلا تجربہ تھا۔
ہوا یوں کہ آس پڑوس میں پڑنے والے مسلسل ڈاکوں اور چوریوں سے پریشان اور نجی محافظوں کی مشکوک وفاداریوں سے نالاں ہو کر ہم نےایک سگ پرست اور سگ شناس دوست کے مشورے سے رکھوالی کے لیے ایک عدد اعلی نسل کا کتا رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کےلیے ہمیں اس ڈاگ سنٹر کی زیارت کے شرف سےبامشرف ہونا پڑا۔جہاں تک آس پڑوس میں ہونے والی چوریوں کا تعلق ہے تو شنید تھی کہ یہ کام کتوں کے رکھوالے، اپنےکتوں کی فروخت اور دام بڑھانے کے لیے خود کروا رہے تھے۔ بہرحال کتے اب ناگزیر ہو چکے تھے۔
حفاظت کی غرض سے تیار کیے جانے والے ان کتوں کے تحفظ کے لیے قائم کردہ کئی حفاظتی حصاروں اور مراحل سے گزر کر ہم یہاں پہنچے تھے۔ اپنی شناخت پر اٹھنے والی شکی نگاہوں کی تسلی کرواتے کرواتے ہمیں اپنا آپ بھی مشکوک سا لگنے لگا تھا۔ تاہم، اپنا گرتا ہوا اعتماد بمشکل اور بظاہر بحال کرتے ہوئے ہم کتوں کی فوج ظفر موج کو ملاحظہ کرنے لگے۔
کتوں کی مختلف نسلوں سے تو ہم واقف تھے نہیں،اس لیے ان کے مزاجوں سے ان کی ذات اور وفاداری کا اندازہ کرنے لگے۔دیکھا کہ کچھ کتے کان اور دم اونچےکیے خواہ مخواہ چاک و چوبند کھڑےتھے، ہر آنے جانے والے پر غرّاتےیا خشمگین نظروں سے گھور کر دیکھتے۔ اس سے اور کچھ نہیں تو ان کی موجودگی کا احساس ضرور ہو رہا تھا ،ورنہ شاید ان پر نظرہی نہ پڑتی۔
کچھ کتے عمر رسیدہ ہو چکے تھے ،مگر پھر بھی بہت اچھے ماحول میں رکھے ہوےٴ تھے۔ یہ بڑے آرام سے زبانیں لٹکاےٴ بیٹھے تھے۔ ہر ایک آنے جانے والے کو بے التفاتی سے گھورے چلےجا رہے تھے۔ کبھی کبھی ڈانٹنے کے انداز میں کسی نو آموز کتے یا نووارد شخص پر بھونک بھی دیتے۔ان کا بھاری پڑتا جسم ان کی کمزور پڑتی ٹانگوں کے لیے ایک ناگوار بوجھ بنا ہوا تھا، جسے وہ بظاہر بڑی متانت سے سنبھالے ہوے تھے۔ ان کا کوئی کام معلوم نہیں پڑ رہا تھا ۔ پوچھنے پربتایا گیا کہ ان کی بےکاری کے باوجود ان کا یہ پروٹوکول ان کی سابقہ خدمات کی بنا پر دیا گیا تھا۔ کتوں کے نگرانوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ ایک ریٹایرڈ کتے کے اخراجات اور راتب پر اٹھنے والا خرچ ایک جوان کتے کے مقابلے میں تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔۔بہرحال، ان کا استحقاق کسی طور مجروح نہیں ہونے دیا جارہا تھا۔
ہمیں بتایا گیا کہ کتوں میں بھونکنے والے کتے کونسے ہیں اورکاٹنے والے کونسے۔ اور یہ کہ جو بھونکتے ہیں وہ کب کاٹ سکتے اور جو کاٹتے ہیں وہ کتنا بھونک لیتے ہیں۔نیز یہ بھی کہ کس وقت وہ بھونکنے کے ساتھ کاٹتے ہیں اور کاٹنے کے ساتھ بھونکتے ہیں۔ ہر کتے کی اوقات اور موڈ اس لحاظ سے مختلف تھے۔
ڈاگ سنٹر کے کتے باہر سے آنے والے واردین پر بہت غصہ ہونے لگے تھے۔ وجہ یہ معلوم ہوئی کہ ڈاگ سنٹر کی چار دیواری میں پڑے پڑے انہیں باہر کی دنیا سے زیادہ تعلق نہیں رہتا،اس لیے باہر والوں کو زیادہ دیر برداشت نہین کر پاتےاورانہیں دیکھتے ہی کان، دم کھڑے کر کے بھونکنے لگتے ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ بھونکتے بھونکتے جوش میں آ کر گلےکی رسی کہیں ڈھیلی پڑ گئی تو کاٹ بھی لیا۔ ایسے حادثات رونما ہونے کی وجہ سے لوگ ڈاگ سنڑ کا رخ کم کرنے لگے تھے ، تاہم، جب آنا ہی پڑتا تو خود حفاظتی اور خود شناختی کا مقدور بھر بندوبست کر کے آتے ۔
کتوں کے نگرانوں نے ہمیں تربیت یافتہ کتوں کی تربیت کا مظاہرہ بھی دکھایا۔ کتے اپنے نگران کے حکم پر بلا چوں چراں عمل کرتے۔ حکم کتنی ہی بار دیا جاتا اور کتنا ہی بے تکا کیوں نہ ہوتا، وہ کر گزرتے۔ حتیٰ کہ ایک ہلکے سے اشارے پر اپنے ہی بھائیوں پر بھی پِل پڑتے ۔ یہ دیکھ کر ہم تربیت کاروں کی تحسین کیے بغیر نہ رہ سکے۔
ہمیں بتایا گیا کہ کتوں کا آپس میں ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرنے کا ایک مخصوص طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ یہ ایک دوسرے کا پچھواڑہ سونٖگھ کر ایک دوسرے کی ذات، اوقات اور علاقے کا پتا چلا لیتے ہیں ۔ وہیں یہ بھی طے کر لیتے ہیں کہ کس نے اپنی دم ٹانگوں میں دبا کر آداب بجا لانا ہے اور کس نے سر اٹھا کر دوسرے سے اس کی اوقات کے مطابق سلوک کرنا ہے۔
کتوں کی مخصوص عادات کے بارے ہمیں یہ آگاہی دی گئی کہ کتے جہاں ہوتے ہیں اس علاقے کےاطراف میں مختلف جگہوں پر پیشاب کرکے اپنی سرحد قائم کر لیتے ہیں۔ اور اگر کوئی دوسرا کتا اس علاقے سے گزرے تو بلا اشتعال بھونکنا شروع کردیتے ہیں، اور اگر کھلے ہوئے ہوں تو لڑ بھڑ کر باہر سے آئے کتے کو نکال باہر کرتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ کتے کی دم کی پوزیشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتا کس موڈ میں ہے۔ دم کھڑی ہو تو وہ غصے یا اعتماد میں ہوگا۔ اس حالت مین اس کے منہ نہیں لگنا چاہیے. دم درمیان میں ہو تو کتا کی سپرٹ کم ہوتی ہے۔ اس حالت میں اسے کسی بےباک کے لئے راضی کیا جا سکتا ہے. دم مسلسل ہل رہی ہو تو کتا خوشامد کے موڈ میں ہے۔ اس حالت میں اگر اس سے کتوں والی کی جائے تو برا نہیں مناتا. دم اگر ٹانگوں میں دبی ہو تو کتا ڈرا ہوا ہوتا ہے۔ اس حالت میں بهی اسکے زیادہ قریب نہیں جانا چاہئے. یہ اس وقت دفاعی نفسیات کا شکار ہوتا ہے اور آپ کو بهی اپنا دشمن سمجه کر کاٹ سکتا ہے. کتا اگر اپنی ہی دم کے پیچھے گول گول گھوم رہا ہو تو سمجھ جائیے کہ کتا بور ہو رہا ہے۔
بہت تلاش و جستجو اور لیت و لعل کے بعد ایک کتا ہمیں پسند آ ہی گیا جو ڈیل ڈول کے اعتبار سے بھی کتا ہی لگتا تھا۔زیادہ تر اسی نسل کے کتے اس ڈاگ سنٹر میں رکھے گئےتھے۔ دام چکا کر ہم اس کتے کو چمکارتے پچکارتے اور اس کے منہ لگنے سے بچتے بچاتے اسے گھر لے آےٴ۔
ایک ہفتے بعد ہمارے وہ سگ پرست اور سگ شناس دوست ، جو ہماری کتوں کی خریداری کے وقت شہر سے باہر تھے،ہم سے ملنے ہسپتال آےٴ۔انہوں نے ہمیں بتایا کہ جس نسل کا کتا ہم لے کر آےٴ تھے وہ ایسا کتا تھا جو چوروں اور ڈاکووٴں پر تو فقط بھونکتا ہی ہے، مگر جب کاٹتا ہے تو اپنے ہی مالک کو کاٹتا ہے۔ان تاخیری معلومات پر ہم نے اپنے دوست کا شکریہ ادا کیا اور ایک اور انجکشن اپنے پیٹ میں لگوا لیا۔

No comments:

Post a Comment