Saturday 5 December 2015

ایک غلط العام غلط فہمی مولانا ظفر علی خان کا ایک مشہور شعر اور قرآن کی ایک آیت کے ساتھ اس کےمعنوی اشتراک کے بارے میں ایک مغالطہ

مولانا ظفر علی خان کا یہ مشہور شعر :
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
قرآن کی آیت:
انَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ
سے ماخوذ سمجھا جاتا ہے۔ 
اس بارے چند غلط فہمیاں دور کرلی جانی چاہیے۔ پہلی بات یہ کہ یہ شعر غلط طور پر علامہ اقبال یا الطاف حسین حالی سے منسوب کردیا جاتا ہے۔ یہ درحقیقت مولانا ظفر علی خان کا شعر ہے۔ دوسری بات یہ کہ مولانا نے اس شعر کا خیال قرآن کی درج بالا آیت سے لیا ہے یا نہیں، یہ متحقق نہیں۔ تاہم یہ سمجھنا غلط فہمی ہے کہ اس شعر اور قرآ ن کی آیت کا مفہوم یکساں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں کوئی معنوی اشتراک نہیں بلکہ دونوں کلیتہً مختلف مفاہیم پر دلالت کرتے ہیں۔
اس شعر کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ جس قوم کو اپنی بری حالت کی اصلاح کی فکر نہ ہو، خدا بھی ان کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ دوسرے لفطوں میں خدا ان قوموں کی حالت بہتر بنانے میں ان کی میں مدد کرتا ہے جو اپنی حالت بہتر بنانے کی فکر اور کوشش کرتےہیں۔ یہ خیال بذاتِ خود درست ہے۔ لیکن اس کو محو بالا آیت کا مصداق سمجھنا غلط ہے۔ اس آیت کا مصداق کچھ اور ہے۔ جو ہم بیان کرنے کی جوشش کرتے ہیں۔
یہ آیت معمولی تغیرِ الفاظ کے ساتھ قرآن میں دو جگہ آئی ہے۔ دونوں جگہ سیاق و سباق واضح طور پر بتاتا ہے کہ اس کے مخاطب کفار ہیں اور ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ خدا کی یہ سنت ہے کہ وہ کسی خوشحال قوم کی حالتِ نعمت کو اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ اپنی بری حرکتوں اور گناہوں سے خود کو ان نعمتوں کے لیے غیر مستحق ثابت نہ کردیں۔ جب وہ ایسا کر تے ہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ خدا ان سے وہ نعمت چھین کر انہیں مبتلائے عذاب کر دیتا ہے۔
ملاحظہ ہو دونوں آیات مع اپنے سیاق کے اور ان کے بارے میں جمہور مفسرین کای آراء:
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ (سورہ الرعد سورہ 13 آیت 11(
ان پر ان کے آگے اور پیچھے سے امر الٰہی کے مؤکل لگے رہتے ہیں جو باری باری سے ان کی نگرانی کرتے ہیں۔ اللہ کسی قوم کے ساتھ اپنا معاملہ اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی روش میں تبدیلی نہ کر لے اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی آفت لانے کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی اور ان کا اس کے مقابل میں کوئی بھی مددگار نہیں بن سکتا۔ (اصلاحی)
كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّـهِ فَأَخَذَهُمُ اللَّـهُ بِذُنُوبِهِمْ إِنَّ اللَّـهَ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ وَأَنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (سورہ الانفال، سورہ 8 آیت 52 تا 53(
ان کی حالت ایسی ہے جیسے فرعون والوں کی اور ان سے پہلے کے (کافر) لوگوں کی (حالت تھی) کہ انہوں نے آیاتِ الہیہ کا انکار کیا سو خدا تعالیٰ نے ان کے(ان) گناہوں پر ان کو پکڑ لیا بلاشبہ الله تعالیٰ بڑی قوت والے سخت سزا دینے والے ہیں۔ (۵۲) یہ بات اس سبب سے ہے کہ الله تعالیٰ کسی ایسی نعمت کو جو کسی قوم کو عطا فرمائی ہو نہیں بدلتے جب تک کہ وہی لوگ اپنے ذاتی اعمال کو نہیں بدل ڈالتے اور یہ امر ثابت ہی ہے کہ الله تعالیٰ بڑے سننے والے بڑے جاننے والے ہیں۔ (تھانوی(
ابن، کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
يُخبِرُ تَعَالَى عَنْ تَمَامِ عَدْلِهِ، وَقِسْطِهِ فِي حُكْمِهِ، بِأَنَّهُ تَعَالَى لَا يُغَيِّرُ نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى أَحَدٍ إِلَّا بِسَبَبِ ذَنْبٍ ارْتَكَبَهُ، كَمَا قَالَ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْوَالٍ} [الرَّعْدِ:11] (تفسیر ابن کثیر، دار طيبة للنشر والتوزيع،1999، جلد 4، ص 78(
"
اللہ تعالیٰ اپنے ہر حکم میں عادل اور منصف ہے۔ جب تک بندہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے وہ اسے دی ہوئی نعمت نہیں چھینتا۔ جیسا کہ فرمایا: إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْوَالٍ
صاحبِ کشاف لکھتے ہیں:
يعنى ذلك العذاب أو الانتقام بسبب أن الله لم ينبغ له ولم يصحّ في حكمته أن يغير نعمته عند قوم حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بهم من الحال
"یعنی کہ یہ عذاب اور انتقام کسی سبب سے ہوتا ہے ۔ اللہ کے یہ شایانِ شان نہیں اور نہ یہ اس کی حکمت کے مطابق درست ہے کہ کسی قوم کی حالتِ نعمت کو بدل ڈالے سوائے یہ کہ وہ لوگ خود اپنا حال بدل (یعنی خراب) کر لیں۔" (کشاف، دار الكتاب العربي - بيروت1407،جلد 2، ص 230(
مولانا مودوی سورہ انفال کی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
یعنی جب تک کوئی قوم اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کی نعمت کا غیر مستحق نہیں بنا دیتی اللہ اس سے اپنی نعمت سلب نہیں کرتا۔ (تفہیم القرآن، ص 152، 153، ادارہ ترجمان القرآن لاہور)
سورہ الرعد کی اسی آیت کے تحت مولانا اصلاحی لکھتے ہیں:
"
یہ قوموں کے عذاب کے معاملے میں اصل سنت اللہ کی وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالیٰ اپنا معاملہ کسی قوم کے ساتھ اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی روش میں تبدیلی نہ کر لے۔ جب قوم خود اپنی روش بدل لیتی ہے اور تنبیہ و انذار کے باوجود متنبہ نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس پر وہ عذاب بھیجتا ہے جس کو کوئی طاقت بھی دفع نہیں کر سکتی۔"( دیکھیے تدبر قرآن، تفسیر سورہ الرعد، آیت 11(
خلاصہء کلام یہ ہے کہ مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر اپنا ایک مفہوم رکھتا ہے جو فی نفسہ درست ہے لیکن یہ سمجھنا کہ قرآن کی محو بالا آیات کی مصداق بھی وہی ہے، غلط فہمی ہے۔ اس آیت کے مفہوم او مصداق کے تعین میں سلف و خلف میں کسی کا اختلاف نہیں۔ مولانا کے شعر کی تائید میں قرآن کی دیگر آیت پیش کی جاسکتی ہیں لیکن درج بالا آیات کے مفہوم کا کوئی معنوی اشتراک مولانا کے شعر کے ساتھ نہیں ہے۔
راقم : ڈاکٹر عرفان شہزاد، پی ایچ ڈی اسلامیات، نمل، اسلام آباد،
ممبر  مجلس  مشاورت 'البصیرہ' نمل  ، اسلام آباد، پاکستان
فون: 92321-5188645

No comments:

Post a Comment